سال کی پہلی دعوت محترم ادریس قریشی کی طرف سے ملی‘ان کا حکم تھا کہ میںیکم جنوری سالِ نو پر ہونے والے’’کُل پاکستان مشاعرہ‘‘میں منڈی بہاء الدین پہنچوں۔منڈی بہاء الدین سے کسی تقریب کا دعوت نامہ کسی بھی قومی اعزاز سے کم نہیں ہوتا کیوں کہ اس شہر کی گلیوں‘سڑکوں اور بازاروں میں میرے لڑکپن کا ایک حسین دور گزرا ہے۔یہاں کے سینئر قلم کاروں اور صحافیوںکے طفیل ہی مجھے ادبی و صحافتی شعور نصیب ہوا‘یہاں سے شعرکہنے‘کالم لکھنے اور مشاعرے پڑھنے کا آغاز کیا تھا‘اسی شہر میں غمِ جاناں اور غمِ روزگار کی تلخیاںنصیب ہوئیں لہٰذا یہ کیسے ممکن تھا کہ مجھے اس شہرِ محبت سے دعوت نامہ ملتا اور میں انکار کرتا۔ادریس قریشی کی دعوت پر اس لیے بھی انکار نہیں ہوتا ہے کہ اس پیارے دوست نے وہ چراغ بجھنے نہیں دیا جس کو یہاں کے ادبی اکابرین(حکیم افتخار فخر‘حکیم ربط عثمانی‘عبد المجید چراغ) نے جلایا تھا‘ان اکابرین سے جتنی محبت ادریس بھائی کوہے‘اتنی ہی یہاں کے ہر ’’سنجیدہ ‘‘ لکھنے والے کو ہے۔سالِ نو پر ہونے والے اس مشاعرے کا اہتمام ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور مجلس فکرو فن کے اشتراک سے کیا گیا تھا‘اس مشاعرے کی گونج یقینا برسوں رہے گی۔مشاعرے میں شرکت کرنے والوں کو ’’اعترافِ فن ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا گیا جس پر انتظامیہ داد و تحسین کی مستحق ہے۔مشاعرے میں ہمارے ایک سینئر دوست نے منڈی بہاء الدین کی ادبی تاریخ بھی پیش کرنے کی کوشش کی جو اس قدر تشنہ تھی کہ آپ اسے’’ شاہی تاریخ‘‘ کہہ سکتے ہیں‘پہلے زمانوں میں بادشاہ شاہی مورخین سے اپنی مرضی کی تواریخ لکھوایا کرتے تھے اور اس میں اپنی مرضی کے کردار اور واقعات رقم کراتے تاکہ تاریخ میں وہ امر ہو سکیں مگر دوستو! تاریخ کب مرتی ہے‘لکھنے اور لکھوانے والے مر بھی جائیں تو تاریخ زندہ رہتی ہے۔اس ادبی تاریخ میں بھی منڈی بہاء الدین میں ہونے والی چار قومی اردو کانفرنسوں اور کئی اہم ترین سینئرز کے ناموں کو جس طرح مسخ کیا یا کرایا گیا‘اس کی بھی ایک الگ کہانی ہے جس پر جلد کالم لکھوں گا۔فی الحال تو مشاعرے پہ بات کرنی ہے ‘محترم ادریس قریشی نے ہمیشہ کی طرح ایک یادگار مشاعرہ کرا کے منڈی بہاء الدین کی ادبی فضا کورونق بخشی اور امید ہے یہ فضا مستقبل میں بھی ایسے ہی یادگار رہے گی۔
مشاعرے سے دو روز قبل پیارے شاعر آفتاب بابر ہاشمی کا فون آیا کہ وحید اللہ کاشر اور پروفیسر مظہر دانش کے حکم کے مطابق آپ کے اعزاز میں ایک شعری شام کا بھی اہتمام کرنا چاہ رہے ہیں‘چوں کہ آپ اپنے آبائی شہر آ رہے ہیں ‘ ہم نے سوچایہ شام یادگار بنائی جائے لہٰذا سالِ نو کے مشاعرے کے بعد آپ شام چھ بجے ہمارے مہمان ہوں گے۔یہ اپنے ہی شہر اور پیاروں کی طرف سے دوسرا حکم تھا اور اس حکم کی تعمیل بھی ضروری تھے کیونکہ مذکورہ تینوں ہستیاں محبت سے بھری ہوئی ہیں‘انھوں نے ہمیشہ مجھے اس قدر پیار دیا ہے کہ میں ان کے پیار کے سامنے بے بس ہو جاتا ہوں ۔وحید اللہ کاشر ہماری دھرتی کا انتہائی سینئر نغمہ نگار اور شاعر ہے جس نے اس شہر میں درجنوں یادگار مشاعرے کرائے‘ آفتاب بابر دیارِ غیر میں بھی ادب کی آبیاری میں پیش پیش ہوتا ہے‘مظہر دانش جاپان رہا تو وہاں بھی ادب کی شمع جلائے رکھی‘اب اپنے شہر میں ہے تواپنی منفرد صداکاری سے محفلیں لوٹ رہا ہے۔میں ان دونوں مشاعروں میں جانے کے لیے تیاریوں میں تھا کہ کراچی سے برادر طاہر اعجاز کا فون آ گیا کہ وہ تدریس کے موضوع پر ایک کل پاکستان کانفرنس کر رہے ہیں‘اس میں مشاعرے کے سیشن میں مجھے آن لائن شرکت کرنا ہوگی‘دوستو!یہ یکم جنوری کا ہی تیسرا مشاعرہ تھا جس کے لیے کراچی سے انتہائی سنیئر دوست طاہر اعجاز کا حکم نامہ ملا۔یہ تینوں تقریبات ایسی تھیں کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑنا میرے لیے ممکن نہیں تھا لہٰذا تینوں دوستوں سے حامی بھر لی۔
محترم طاہراعجاز نے ایک بالکل منفرد اور نئے موضوع پر کانفرنس رکھ کے مجھے حیران کر دیا‘ہمارے ہاں اردو کانفرنسیں تو ہوتی ہیں جن میں تحقیق و تنقید سمیت درجنوں موضوعات پر سیشن رکھے جاتے ہیں مگر تدریسی مسائل و امکانات پر کبھی کانفرنس دیکھی نہ سنی‘محترم طاہر اعجاز نے اس اہم ترین موضوع پر کانفرنس رکھی جس میں پاکستان سمیت دیگر ممالک سے بھی مندوبین شریک ہوئے اور’’اردو تدریس میں کیسے تازگی اور توانائی لائی جائے‘‘کے موضوع پرسیر حاصل مکالمہ ہوا۔ پاکستان تنظیم اساتذہ برائے تدریس ِ اردو (پتا بتا) کی جانب سے ہونے والی اس کانفرنس سے مجھ سمیت درجنوں اردو کے طالب علموں اور اساتذہ کرام کوسیکھنے کا موقع ملا۔اس کانفرنس میں آن لائن طریقہ تدریس ِ اردو‘آن لائن امتحان‘دورانِ تدریس طلبہ کے لیے باہمی تعاون سمیت کئی اہم ترین نکات زیرِ بحث رہے۔ میں اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر محترم طاہر اعجاز کا ممنون بھی ہوں اور مبارک باد بھی پیش کرتا ہوں۔میری جناب طاہر اعجاز سے گزارش ہے کہ یہ کانفرنس اگلی دفعہ آن لائن کے بجائے فزیکل رکھیں اور زیادہ بڑے پیمانے پر کریں کیونکہ یہ کانفرنس اپنے موضوع و مواد کے اعتبار سے منفرد سمجھی جائے گی۔
بات ہو رہی تھی مشاعروں کی‘پہلے مشاعرے کے بعد عبد الرحمن شاکر کی ڈرائیونگ میں ڈی ایم جی دفتر پہنچا‘یہ دفتر ہمارے دوست گلوکار نعمان خان کا ہے۔ اس پیاری آواز رکھنے والے دوست سے تعلق بھی اسی زمانے میں بنا تھا جب میں شعر کہنا اور کالم لکھنا سیکھ رہا تھا۔منڈی بہاء الدین کے ایک علاقائی اخبار کے دفتر میں پوری پوری رات بیٹھتے‘میں اسے شاعری سناتا تھا اور نومی مجھے گانا‘دونوں ہی مبتدی تھے۔پھرغمِ روزگار مجھے لاہور لے آیا اور نعمان نے اپنا بینڈ بنا لیا اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔مشاعرے کے بعد نعمان کی آواز سے لطف اندوز ہوئے اور یہ شامِ شاعری‘شام ِ موسیقی میں بدل گئی جس میں ابرار انجم‘نوید فاروقی اور شاکر بھائی کی موجودگی نے چار چاند لگا دیے۔تینوں تقریبات سے فراغت کے بعد پروفیسر مظہر دانش کی عیادت کے لیے اس کے گھر پہنچے جہاں پرتکلف عشائیے کا اہتمام تھا۔دانش بھائی پچھلے دو ہفتوں سے بستر پہ تھے مگر دوستوں کے آنے سے اس قدر بشاش لگ رہے تھے جیسے بیمار تھے ہی نہیں یعنی ہمدمِ دیرینہ سے ملاقات ‘مسیحا و خضر کی ملاقات سے بہتر ثابت ہوئی۔رات دانش کے ہاں ہی قیام کیا اور صبح دوبارہ شہرِ محبت سے شہرِ روزگار کی جانب گامز ن ہو گئے۔دوستو! سال کا یہ پہلا دن کس قدر یادگار اور مصروف تھا‘آپ اس کالم سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔