اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں اسپتال کی تعمیر سے متعلق مقدمے میں چیف جسٹس نے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اپنے چیمبر میں طلب کر لیا۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں اسلام آباد میں اسپتال کی تعمیر سے متعلق مقدمے کی سماعت ہوئی۔
اس موقع پر سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد کے علاقے ترلائی میں 200 بیڈ کا اسپتال بنا تھا۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا جو اسپتال حکومت بحرین نے بنانا تھا اور سی ڈی اے نے زمین دینا تھی اس کا کیا ہوا جس پر سیکرٹری صحت نے کہا اس کا کچھ نہیں ہوا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے کہا گیا کہ 5 دن میں زمین کا فیصلہ کریں جس پر وکیل سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ زمین کے حصول کے معاملے میں نیب نے انکوائری شروع کر دی۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایک درخواست آتی ہے اور لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا نیب کے علاوہ سارے چور ہیں اور چیئرمین نیب عدالت میں پیش ہوں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا ایک درخواست پر لوگوں کی عزت ختم کر دیتے ہیں اور جو آتا اس پر انکوائری شروع کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ لاہور میں نیب کی ایک بی بی بیٹھی ہے جو لوگوں کو بلیک میل کرتی ہے اور وہ بی بی اپنے کام کروا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا نیب چیئرمین اور پراسیکیوٹر چیمبر میں پیش ہوں۔