جب دسمبر 2003 میں سی آئی اے نےسابق عراقی صدر صدام حسین کو تکریت سے حراست میں لیا تو جان نکسن اس وقت عراق میں کام کر رہے تھے اور جب صدام حسین کی شناخت کی تصدیق کی ضرورت ہوئی، تو جان نکسن کو چنا گیا۔
اِن دنوں یہ افواہ گرم تھی کہ صدام حسین کی جسامت اور شکل و صورت سے ملتے جلتے کئی لوگ ہیں لیکن جان نکسن کہتے ہیں کہ جس لمحے انھوں نے صدام حسین پر نظر ڈالی ان کو یقین تھاکہ یہیشخص سابق عراقی صدر ہے۔
جان نکسن بحثیت تفتیشی افسر پہلے شخص تھے جنہوں نے صدام حسین سے کئی دنوں پر محیط گفتگو کی اور تفصیلی سوالات کیے۔
جان نکسن نے 2011 میں سی آئی اے کو الوداع کر دیا تھا اور اس کے بعد ایک کتاب 'ڈی بریفنگ دی پریزیڈنٹ'تحریر کی جو ان کے صدام حسین سے کیے گئے سوالات اور تجربات پر مبنی تھی۔ جان نکسن کے مطابق صدام حسین کی ذات تضادات سے بھرپور تھی۔
جان نکسن کے مطابق اُنہوں نے صدام حسین کی زندگی کے انسانی پہلو قریب سے دیکھے جن کا امریکی میڈیا میں کبھی بھی ذکر نہیں ہوا۔
'زندگی میں بہت کم لوگ میں نے دیکھے ہیں جن کی اتنی کرشماتی شخصیت تھی۔جب ان کا دل کرتا تو وہ بہت مسحور کن، شوخ، اور خوش اخلاق ہو جاتے۔'
لیکن جان نکسن کے مطابق کبھی کبھی صدام حسین کی طبیعت کے تاریک پہلو سامنے آ جاتے جن میں وہ بدتمیز، مغرور اور مطلبی شخص بن جاتے۔ 'دو تین دفعہ ایسا ہوا جب میرے سوالات سے ان کو شدید غصہ آ گیا تھا۔'
جان نکسن صدام حسین کے بارے میں مزید بتاتے ہیں کہ 'وہ انتہائی شکی مزاج انسان تھے اور میرے ہر سوال پر ان کا بھی ایک سوال ہوتا تھا۔'
جان نکسن کے مطابق ان پر اور کوئی روک ٹوک تو نہیں تھی لیکن سی آئی اے نے چند موضوعات پر گفتگو اور سوالات کرنا لازمی قرار دیا تھا۔
ان میں سب سے اہم سوال عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (ڈبلیو ایم ڈی) کی موجودگی کا تھا۔ 'وائٹ ہاؤس بس صرف ڈبلیو ایم ڈیز کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔'
لیکن جان نکسن نے کہا کہ صدام حسین کے ساتھ کی جانے والی گفتگو اور بعد میں صدام حسین کے ساتھیوں سے بات کر کے انہیں یقین ہو گیا کہ صدام حسین نے کئی سال پہلے عراق کے جوہری پروگرام کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا تھا۔
اور یہی وہ یقین تھا جس کی وجہ سے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو ناکام قرار دیا گیا تھا۔
جان نکسن نے صدر بش کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوۓ کہا کہ وہ صدر بش اور صدام حسین دونوں کے ساتھ ہاتھ ملا چکے ہیں لیکن وہ صدام حسین کے ساتھ وقت بتانے کو زیادہ ترجیح دیں گے۔
جان نکسن کے مطابق صدر بش حقیقت سے دور تھے اور ان کے ساتھ صرف وہ لوگ تھے جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔
جان نکسن نے صدام حسین کے ہٹائے جانے کے بعد عراق میں ہونے والے حالات پر اپنی شرمندگی کا اظہار کیا اور کہا کہ بش انتظامیہ کے پاس صدام حسین کے بعد کے عراق کے لیے کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آج بھی مشرق وسطیٰ کا خطہ بہت بہتر ہوتا اگر صدام حسین عراق کے صدر ہوتے۔