اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کے دوران اہم سوالات اٹھائے گئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ "ہمارے آرمی ایکٹ کی سیکشن 2(D) کیا دنیا میں کہیں اور ہے؟" سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کی تحقیق کے مطابق ایسی کوئی شق دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ہے۔
وکیل راجہ نے مزید کہا کہ پاکستان کا آئین، خاص طور پر آرٹیکل 175(3)، آزاد اور شفاف ٹرائل کی ضمانت دیتا ہے، اور فوجی عدالتیں اس قسم کی آزادی فراہم کرنے کے لیے مناسب فورم نہیں ہیں۔ انہوں نے بھارت کے آرمی ایکٹ کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں فوجی عدالتوں کی اپیل ٹریبونل میں جاتی ہے، جبکہ پاکستان میں یہ سہولت موجود نہیں۔
سماعت کے دوران، جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 10-A صرف سویلینز کے لیے ہے یا اس کا اطلاق فوجی اہلکاروں پر بھی ہوتا ہے؟ اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس کا اطلاق دونوں پر ہونا چاہیے۔
سماعت میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ملک دشمن ایجنسیاں بعض اوقات سویلینز کو استعمال کرتی ہیں، اور اگر فوجی عدالتوں کی شقیں کالعدم قرار دی جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک دشمن ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والوں کا بھی فوجی ٹرائل نہیں ہو سکے گا۔
سلمان اکرم راجہ نے مزید کہا کہ پاکستان کا آرمی ایکٹ حکومت کی مخالفین کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، اور اس کا نشانہ وہ لوگ بن رہے ہیں جو حکومت کے مخالف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان پر بھی الزام لگایا گیا ہے کہ وہ تین رینجر اہلکاروں کے قتل میں ملوث ہیں اور اگر ان دفعات کو بحال کیا گیا تو ان کا استعمال اسی طرح کیا جائے گا۔
بعد ازاں عدالت نے فوجی عدالتوں میں سِولینزکے مقدمات سےمتعلق کیس 10 فروری تک ملتوی کردی۔