سوشل میڈیا پر فوج اور عدلیہ کی تضحیک پر 5 سال قید 10 لاکھ جرمانہ ہوگا، بغیر وارنٹ گرفتاری ہوسکے گی: کابینہ جلد ترمیمی قانون کی منظوری دے گی

07:46 PM, 4 Feb, 2023

نیوویب ڈیسک

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے فوج اور عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا یا کسی اور ذریعے سے مہم چلانے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ فوجداری قانون میں ترمیم کے بعد فوج اور عدلیہ کے خلاف بیان بازی پر 5 سال قید اور 10 لاکھ جرمانہ ہوگا۔ 

انگریزی ویب سائٹ ڈان ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) اور ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) میں ترمیم کی جائے گی اور جو بھی شخص پاک فوج اور عدلیہ کی تضحیک کرے گا اسے پانچ سال تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔ وزارت قانون نے مجوزہ ترمیمی مسودہ وزارت داخلہ کو بھجوادیا ہے جو جلد وزیر اعظم اور کابینہ کو بھجواے دے گی۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجداری قوانین (ترمیمی) ایکٹ 2023 کے عنوان سے بل پی پی سی 1860 میں سیکشن 500 کے بعد ایک نیا سیکشن 500A  شامل کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی بھی عدلیہ، مسلح افواج یا ان کے کسی رکن کی تضحیک یا اسکینڈلائز کرنے کے ارادے سے کسی بھی ذریعے سے کوئی بیان، شائع، گردش یا معلومات پھیلاتا ہے تو وہ  جرم کا مرتکب ہو گا ۔

مجورہ ترمیم کے مطابق اس جرم کی سزا ایک مدت کے لیے سادہ قید ہو گی جس کی توسیع پانچ سال تک ہو سکتی ہے یا جرمانہ جو کہ 10 لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے یا دونوں  سزائیں بھی ایک ساتھ دی جا سکتی ہیں۔ 

 پی پی سی کے شیڈول II میں سیکشن 500 میں 500A کے عنوان سے ایک نیا سیکشن شامل کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مجرم کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا جائے گا اور یہ جرم ناقابل ضمانت ہوگا جسے صرف سیشن کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ 

کابینہ  کے لیے تیار کی جانے والی سمری میں کہا گیا ہے کہ حال ہی میں ملک میں عدلیہ اور مسلح افواج سمیت ریاست کے بعض اداروں پر توہین آمیز، تضحیک آمیز اور شیطانی حملوں کا سلسلہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ بات مشہور ہے کہ بعض لوگوں کی طرف سے جان بوجھ کر سائبر مہم شروع کی گئی ہے جس کا مقصد اہم ریاستی اداروں اور ان کے اہلکاروں کے خلاف نفرت کو ہوا دینا اور پروان چڑھانا ہے۔

مجوزہ قانون  میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح کے حملے ملک کے ریاستی اداروں کی سالمیت، استحکام اور آزادی کو نقصان پہنچانے پر مرکوز ہیں۔ عدالتی اور فوج کے حکام کو میڈیا میں آکر توہین آمیز اور توہین آمیز ریمارکس کی نفی کرنے کا موقع نہیں ملتا۔

مزیدخبریں