میں گزشتہ کالم میں یہ عرض کر رہا تھا بیٹے کے ولیمے میں مجھے یہ احساس ہونے لگا بن بْلائے مہمانوں کی تعداد بْلائے ہوئے مہمانوں سے زیادہ ہے، اس صورتحال میں، میں مسلسل اس خوف کا شکار تھا کھانا کہیں کم نہ پڑ جائے، معجزاتی طور پر اللہ نے میری لاج رکھ لی، سوائے چار دوستوں کے کسی نے شکایت نہیں کی اْسے کھانا نہیں ملا، شکایت کنندگان کو کھانا اگلے روز میں نے اپنے گھر سے تیار کروا کے اْن کے گھر پہنچا دیا، میرے والد مرحوم فرماتے تھے“بیٹا شادی پر ایک تو کھانا کم نہیں ہونا چاہئے دوسرے اچھا ہونا چاہئے“۔۔ مجھے یاد ہے بہت برس قبل میری چھوٹی بہن کی شادی پر وہ بیمار ہوگئے، شادی کے انتظامات میرے ذمے لگاتے ہوئے وہ مجھ سے کہنے لگے”پْترہم نے اپنی بیٹی کو جہیز میں کیا دیا کیا نہیں دیا کسی کو ان باتوں سے دلچسپی نہیں ہوتی، شادی کے شرکاء کو بس ایک وقت کی ”روٹی“ یاد رہ جاتی ہے، سو اس معاملے میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے“۔۔ اْس زمانے میں ون ڈش کی پابندی نہیں ہوتی تھی، میں کھانوں کی ایک فہرست بنا کر اْن کے پاس لے گیا، اس فہرست میں ران روسٹ، مٹن قورما، دیسی مرغ کی کڑاہی، مٹن پلاؤ، پالک گوشت اور بار بی کیو وغیرہ شامل تھے، وہ فرمانے لگے ”ان ڈشوں میں مجھے کچھ کمی سی محسوس ہو رہی ہے“، میں نے اْن کی یہ بات سْن کر ازرہ مذاق کہا”ابا جی پھر ایسے کرتے ہیں ان ڈشوں میں پاوے اور اوجڑی بھی شامل کر لیتے ہیں“، میرا خیال تھا وہ میرے اس مذاق کو بالکل سیریس نہیں لیں گے، وہ بڑی سنجیدگی سے بولے”ٹھیک ہے نائی (باورچی) سے کہنا اوجڑیاں ذرا اچھی طرح صاف کرے اور اْن میں میتھی اور ادرک زیادہ ڈالے، اس کے علاوہ پاوے اچھی طرح گلائے پر اتنے بھی نہ گلائے کہ پاووں کا قیمہ بن جائے“۔۔ پاووں سے مجھے یاد آیا ہمارے ایک جاننے والے ”بٹ صاحب“ مرحوم جب بھی پاوے لینے جاتے ایک ”فٹ“ اپنی جیب میں ساتھ رکھ کر لے جاتے، وہ پاوے کو فْٹ سے ناپتے تھے، ایک فْٹ سے کم پاوے کو وہ پاوا ہی نہیں سمجھتے تھے، میں سوچتا ہوں آج وہ زندہ ہوتے میں اْنہیں ”سات فْٹے“ پاوے سے ملواتا جس کا نام اختر پاوا ہے، یہ اختر پاوا کمال کی آئٹم ہے، اللہ جانے پنجاب کی نگران کابینہ میں اْسے کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ اتنی”سریاں“ بغیر مغز (دماغ) کے نگران کابینہ میں شامل کر لی گئیں ایک ”پاوا“ بھی شامل کر لیا جاتا کابینہ کا”سواد“ ہی کچھ اور ہوتا۔۔ میرے صاحبزادے کی شادی کی تقریبات میں ایک شب نصیبو لعل کے لئے وقف تھی، کینیڈا، امریکہ اور دیگر ممالک سے شادی میں شرکت کے لئے آنے والے میرے کئی عزیزوں کی فرمائش یا خواہش تھی اْنہوں نے نصیبو لعل کو سْننا ہے، میرا اْس سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا، پتہ چلا وہ بیرون مْلک ہے، میں نے اپنے عزیزوں سے کہا ہم شازیہ منظور یا عذرا جہاں کو بْلا لیتے ہیں، وہ بضد تھے اْنہوں نے نصیبو لعل کو ہی سْننا ہے، میں نے اپنے محترم بھائی مْلک ابرار سے رابطہ کیا، اْن کے بڑے بھائی اور میرے مہربان ملک ریاض لاہور کے علاقے شاہدرہ سے ایم این اے ہیں، نصیبو لعل اْن کے حلقے کی رہائشی ہے، وہ ابرار ملک کو اپنا ”پیر“ مانتی ہے، اْسے جب بھی اپنی سیکورٹی یا اس نوعیت کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے وہ ابرار ملک سے ہی رابطہ کرتی ہے، اْنہوں نے میری مْشکل آسان کر دی، اْنہوں نے لندن میں نصیبو لعل سے رابطہ کر کے اْسے فوری طور پر واپس آنے کے لئے کہا، نصیبو لعل سے فون پر میری بات بھی کروا دی۔۔ اْس نے کہا ”میں ضرور آؤں گی اور ایک بھرپور شو بطور سلامی آپ کے بیٹے کی نذر کروں گی“ اپنے وعدے کے مطابق وہ آئی اور مسلسل چار گھنٹے گا کر ایسا سماں باندھا جیسے وہ ساڑھی باندھتی ہے، ساڑھی کا ذکر میں نے اس لئے کیا اْس نے مجھ سے پوچھا تھا ”فنکشن میں کون سی ساڑھی پہن کر آؤں؟“ میں نے عرض کیا ”میری طرف سے بے شک کوئی نہ پہن کر آئیں، اپنی طرف سے جو مرضی پہن آئیں“۔۔ وہ بہت سادہ خاتون ہے، جیسے ہماری گلوکارہ ریشماں تھیں، وہ جب گا رہی تھی میری ایک عزیزہ نے مجھ سے پوچھا ”نصیبو لعل گاتے ہوئے کوئی ڈائری آگے نہیں رکھتی، اْسے اتنے گانے یاد کیسے رہتے ہیں؟“، میں نے جب یہ سوال نصیبو لعل سے پوچھا وہ بولی”میں تاں اج تک سکْولے ای نئیں گئی، مینوں اک لفظ پڑھنا نئیں آؤندا، میں ڈائری کی اگے رکھنی ایں“۔۔ اْن کا حافظہ اتنا تیز ہے نہ صرف اپنے بیسیوں گانے اْسے زبانی یاد ہیں میڈم نورجہاں کے سینکڑوں گانے بھی اْسے یاد ہیں، اْس شب نور جہاں کا ایک گانا ”آؤندا تیرے لئی ریشمی رْومال تے اْتے تیرا ناں کڑھیا وے میں پڑیاں ای چاواں نال آؤندا تیرے لئی“گا کر کمال کر دیا، اس گانے پر شاید زندگی میں پہلی بار میری بیگم نے میرے ساتھ رقص کیا، اْس کے گانے کے دوران کئی مرحلے ایسے آئے جب سْننے والے اس احساس میں مْبتلا ہو گئے یہ نصیبو لعل نہیں نورجہاں گا رہی ہیں، میں نے جب یہ بات نصیبو لعل سے کہی وہ رونے لگی، کہنے لگی”میں تاں میڈم دی جْوتی رنگی وی نئیں“ یعنی میں میڈم نورجہاں کی جْوتی کے برابر بھی نہیں ہوں، یہ یقینااْس کی عاجزی ہے ورنہ اْس کی آواز میں ویسی ہی اْٹھان ہے جیسی نورجہاں کی آواز میں تھی، اب اس موقع پر مجھے میڈم نورجہاں کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے، ایک بار جب اْن کی مقبولیت آسمانوں کو چْھو رہی تھی ہمارے ایک صحافی بھائی حسن رضوی نے ایک تقریب میں اْن سے کہا ”میڈم جی میں تہاڈا انٹرویو لینا ایں“۔۔ میڈم جی نے پوچھا ”کیہ لینا ایں؟“، حسن رضوی نے دوسری بار بھی انٹرویو لینے کا ہی کہا، میڈم بولیں ”میں آج کل بہت مصروف ہوں میری کچھ ریکارڈنگز چل رہی ہیں میں انٹرویو نہیں دے سکتی“، حسن رضوی بولا”میڈم جی میں تہاڈا انٹرویو جنگ اخبار لئی لینا ایں تے تہانوں پتہ اے ایس اخبار دی کیہ حیثیت اے“ میڈم جی نے پھر معذرت کی، حسن رضوی پھر باز نہ آیا، کہنے لگا ”میڈم جی میں تہاڈا پورے صفحے دا انٹرویو چھاپنا ایں“، تنگ آکر میڈم بولیں ”اچھا حسن رضوی تے تیرے انٹرویو نال فیر میں مشہور ہو جاں گی“۔۔ میڈم کے اس جْملے پر پاس کھڑے تمام لوگ قہقہے لگانے لگے۔۔ بیٹے کی شادی پر یہ میرا تیسرا کالم ہے، میں سوچ رہا تھا جس طرح اسلام میں چار شادیاں جائز ہیں اْسی طرح ہمارے ”صحافتی یا کالمی اسلام“ میں اپنے کسی ذاتی معاملے پر کم از کم تین کالمز تو جائز ہی ہوں گے، اب اس پر مزید کالم لکھنا میرے نزدیک اپنے قارئین کے ساتھ تقریباً ویسی ہی”زیادتی“ ہے جیسی ہمارے ڈاکٹر شہباز گل کے ساتھ پچھلے دنوں دوران حراست ہوتی رہی، ویسے بھی ادھر اْدھر کی جتنی ”بونگیاں“ بھی میں مار لْوں بالاآخر مجھے سیاست کی اْسی غلاظت پر دوبارہ لکھنا پڑے گا جس سے لوگوں کو اب بْو نہیں خوشبو آتی ہے۔