قومی معاملات کے حوالے سے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے 7 فروری کو آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو دعوت نامے جاری کر دیئے گئے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی اور حکمران اتحاد کی ناقد تحریک انصاف کے سربراہ کو بھی باضابطہ دعوت نامہ جاری کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے پشاور میں ہونے والے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے تحریک انصاف سے دو نام مانگے گئے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر ایاز صادق نے اسد قیصر اور پرویز خٹک سے باقاعدہ رابطہ کر کے ممبران نامزد کرنے کی درخواست کی تھی۔
بات دراصل یہ ہے کہ ملکی و قومی معاملات جس منفی مقام تک جا پہنچے ہیں وہاں سے انہیں مثبت سمت کی طرف موڑنا کسی بھی سیاسی یا غیرسیاسی جماعت اور ادارے کے بس کی بات نہیں ہے ہمارے ملک میں سیاسی جماعتیں ووٹ مانگنے والی جماعتیں ہیں۔ جمہوریت کی دلدادہ جماعتوں کی اپنی صفیں جمہوریت سے خالی نظر آتی ہیں۔ بیشتر سیاسی و دینی سیاسی جماعتیں، شخصی یا نجی ہیں سیاست موروثی ہے۔ حالیہ سیاسی منظر میں ہمیں کچھ تگڑی سیاسی قیادتیں تو نظر آتی ہیں جن کے ہاتھ عوام کی نبضوں پر ہو سکتے ہیں ان کی عوام میں پذیرائی بھی ہے وہ شاید عوام کو موبلائز بھی کر سکتے ہیں انہیں جدوجہد کے لئے آمادہ بھی کر سکتے ہیں لیکن مسائل کا حجم اس قدر زیادہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی قیادت انہیں اکیلے حل کرنے سے قاصر ہے۔ ایسے ہی پس منظر میں اجتماعی دانش کے ذریعے مسائل پر غوروفکر کرنے اور ان کے حل کے لئے قابل عمل لائحہ عمل ترتیب دینے کے لئے اے پی سی بلائی گئی ہے جو وقت کی ضرورت ہے۔
ویسے ہم اگر غور سے دیکھیں جاری حالات کا مطالعہ و مشاہدہ کریں تو ایک حقیقت بڑی صراحت کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے کہ قوم کو پیش آئندہ حالات کسی سازش یا بیرونی دشمن کے مکروفریب کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ سب کچھ ہماری بدنیتوں اور بداعمالیوں کا شاخسانہ ہے۔ ہمارے سیاسی مسائل بلکہ جاری سیاسی بحران اچانک پیدا نہیں ہوا ہے اس کے ڈانڈے قیام پاکستان کے فوراً بعد کی قومی سیاست سے جڑے ہوئے ہیں اولاً انگریز کی تربیت یافتہ نوکر شاہی سیاست میں ملوث ہوئی سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا، مفادات کے حصول کے لئے پھر خود ہی سیاست دان بن گئی ملک غلام محمد کی شکل میں اقتدار پر قبضہ کیا سکندر مرزا بھی میدان میں کودے سیاست کے پاکیزہ عمل کو گندا کیا۔ فوج کو بھی اقتدار کے کھیل میں شریک کیا۔ جنرل ایوب خان وردی کے ساتھ کابینہ میں شامل کئے گئے۔ فوج نے جب دیکھا کہ سیاست کا کھیل طاقت کے بل پر کھیلا جا رہا ہے بیوروکریسی اپنی
ذہانت کے ذریعے سیاستدانوں کو نچا رہی ہے اور اسی ذہانت کے ساتھ انہوں نے فوج کی طاقت بھی اپنے ساتھ ملا لی ہے تو فوج کے ذہن میں بھی اقتدار کے حصول کی خواہش پیدا ہوئی بالآخر 1958 میں فوج نے کھیل میں شریک رہنے کے بجائے خود اقتدار پر قبضہ کر لیا، پھر یہی سوچ 65 سال سے ہماری سیاست پر حاوی ہے۔ فوج سیاستدانوں کو بناتی، سیاست میں بٹھاتی، نکالتی، چلاتی اور مرضی سے معاملات طے کرتی اور کراتی رہی ہے۔ جنرل ایوب خان ہوں یا جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا ء الحق اور جنرل مشرف سب فکروعمل کے اعتبار سے یکساں نوعیت کا شاہکار تھے انفرادی طور پر کوئی نیک پرہیز گار تھا اور کوئی لبرل اور خوش مذاق لیکن سیاست اور عوام سے نمٹنے اور انہیں آگے لگائے رکھنے کے حوالے سے سب جرنیلوں کا رویہ شعبہ جاتی رہا وہ سب ایک ادارے کے وفادار، اپنے ادارہ جاتی مفادات کے امین اور پروموٹر رہے یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ فوج ایک حتمی سیاسی عامل کے طور پر اپنے پورے قد کاٹھ کے ساتھ ہمارے درمیان موجود ہے جبکہ سیاست اور سیاستدان بے وزن اور بے توقیر نظر آ رہے ہیں۔ 1958 کے بعد فوج نے شعبہ سیاست کو پروان چڑھنے دیا اور نہ ہی سیاستدانوں کو پنپنے دیا۔ آج ہمیں سیاست میں جو ہریالی نظر آتی ہے فوج کی دین ہے۔ پاکستان کے قدآور سیاستدان بشمول عمران خان اور نواز شریف فوج کے لگائے اور اگائے گئے پودے ہیں قابل ذکر سیاسی شخصیتیں بشمول چودھری برادران، شیخ رشید و علی ھذا الناس تمام فوج کے لگائے گئے پودے ہیں۔ فوج کا ترتیب شدہ سیاسی نظام چل رہا ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے کے کپڑے سربازار پھاڑ رہے ہیں سرپھٹول جاری ہے۔ فوج جو چاہتی ہے جب چاہتی ہے اور جیسے چاہتی ہے رونما ہو جاتا ہے۔ ذرا غور کیجئے جنرل باجوہ نے نوازشریف کو سیاست سے نکالا اور عمران خان کو اِن کیا۔ پھر جنرل باجوہ نے عمران خان کو فارغ کیا اور مسلم لیگ ن کو ان کیا لیکن دونوں جماعتیں باجوہ کو توسیع دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں عمران خان تو انہیں لامحدود توسیع دینے کی باتیں بھی کرتے پائے گئے تھے۔
فوج ملک کی دفاعی و سفارتی پالیسی ترتیب دیتی رہی ہے آج صورت حال یہ ہے کہ افغانستان جیسا مسکین ملک بھی ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔ ہمارے تمام ہمسایوں کے ساتھ تعلقات درست نہیں ہیں ہم نے ہندوستان کو ازلی دشمن قرار دے رکھا ہے لیکن اس کی تعمیروترقی اور عالمی برادری میں پذیرائی ہمارے لئے قابل تقلید نہیں ہے ہم آج معاشی طور پر جس ذلت و رسوائی کا شکار ہیں اس کی وجہ ہمارا ایسا ہی سیاسی نظام ہے جس نے ہمارے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کی ہوئی ہیں قوم تقسیم در تقسیم کے جاری عمل کا شکار ہو چکی ہے۔ معیشت ڈوب چکی ہے ریاست پر دہشت گرد حملہ آور ہو چکے ہیں ایسے حالات میں عمران خان افتراق و انتشار کی سیاست کر رہے ہیں۔ انہوں نے انتخابات کا نعرہ لگایا ہوا ہے وہ انتخابات کو مسائل کا حل قرار دے رہے ہیں جو شاید بادی النظر میں درست لگتا ہے لیکن اس مطالبے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس بات کا بھی مکمل انتظام کر رکھا ہے کہ انتخابات مزید انتشار کا باعث بنیں جس حکومت سے وہ انتخابات کا اعلان کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اسے مانتے ہی نہیں اسے ناجائز قرار دیتے ہیں جس اسمبلی نے معاملات طے کرنا ہیں اسے بھی نہیں مانتے اور وہاں سے مستعفی ہو کر سڑکوں پر آنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ پھر جس ادارے نے الیکشن کنڈکٹ کرانا ہیں یعنی الیکشن کمیشن،وہ اس کو بھی ن لیگ کا بغل بچہ قرار دیتے ہیں اس پر طعن و تشنیع کے نشتر چلاتے ہیں گویا ایک طرف الیکشن کرانے کا مطالبہ ہے اور دوسری طرف انہوں نے پکا بندوبست کر رکھا ہے کہ الیکشن منعقد نہ ہوں اور اگر ہوں تو ان کے بطن سے وہ مزید انتشار برآمد کر سکیں۔
ایسے حالات میں لگتا نہیں ہے کہ عمران خان کسی بھی ایسی کاوش کا حصہ بنیں گے جس کا مقصد ملک و قوم کی بہتری ہو۔ اے پی سی جاری ملکی صورت حال میں بہتری کی ایک اچھی کاوش لگتی ہے اس لئے عمران خان کا ایسی کسی بھی کارروائی میں شریک ہونا محل نظر لگتا ہے۔