اسلام آباد : سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کیلئے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے۔ چیف جسسٹس اطہر من اللہ نے دلائل مکمل ہونے پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا۔
نیو نیوز کے مطابق سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو فرانزک کرنے سے متعلق کیس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔ درخواست گزار سابق صدر سندھ ہائی کورٹ بار صلاح الدین بھی عدالت میں پیش ہوئے اوراستدعاکی کہ عدالت کی گزشتہ سماعت کے آرڈر کے مطابق پاکستان بار کونسل کو میں نے لکھا پاکستان بار کونسل نے حسن پاشا ایڈووکیٹ کو نامزد کیا ہے ۔
عدالت نےوکیل صلاح الدین سے استفسار کیا کہ آڈیو کا اوریجنل کدھر ہے ؟ صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ وہ آڈیو کی کاپی فیکٹ فوکس کی ویب سائٹ پر تھی ۔ہو سکتا ہے یہ آڈیو ثاقب نثار سے دوستانہ گفتگو کی ہو جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو اصل آڈیو موجود ہی نہیں اس پر زور ہی نہ دیں ۔
وکیل صلاح الدین نے بتایا کہ ہم چاہتے ہیں اصل آڈیو تک پہنچنے کا پراسیس تو شروع ہو میری امید ہے رپورٹ یہی آئے گی آڈیو درست نہیں اگر دس فیصد بھی چانس نکلا کہ آڈیو درست ہے تو پھر ؟ ہو سکتا ہے سابق چیف جسٹس نے یہ بات کسی جج کو نہ بولی ہو،ہو سکتا ہے یہ ان کی محض اپنے دوست سے کی گئی بات ہو ہو سکتا ہے آڈیو والی گفتگو کا کسی کیس پر اثر نہ پڑا ہو اس کی تحقیقات سے ہی پتہ چلے گا معاملہ کیا ہے ۔ عدالت نےاستفسارکیا کہ یہ ساری گراونڈز اُسی زیر التوا اپیل میں کیوں نہیں اٹھائی جا رہیں ؟
چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ یہ سارا معاملہ ایک کیس سے متعلق ہی ہے۔ زیر التوا کیس سے متعلق متوازی کارروائی کیسے چلائیں یہ بتائیں۔صلاح الدین ایڈوکیٹ نے بتایا کہ یہ صرف ایک پہلو ہے کہ آڈیو شریف فیملی سے متعلق ہے۔ ہو سکتا ہے آڈیو کے علاوہ دیگر گراؤنڈز پر کل شریف فیملی بری ہو جائے کل انہیں صدارتی معافی مل جائے یا کچھ بھی ہو کر کیسز ختم ہو سکتے ہیں اس کے بعد بھی اس آڈیو کی دھند چھائی رہے گی عوام کے ذہن میں اس آڈیو سے متعلق سوالات برقرار رہیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ فرانزک کرائیں شاید رپورٹ آئے کہ آڈیو جعلی یا جوڑ جوڑ کر بنائی گئی اگر ایسی رپورٹ آئی تو سابق چیف جسٹس اور یہ عدالت بھی بری ہو گی ۔عدالت نے استفسارکیاکہ آپ جب اس عدالت کی بات کرتے ہیں پہلے بتائیں اس عدالت سے کیا شکوہ ہے؟ اب آپ کو پہلے بتانا ہو گا اس عدالت نے ایسا کیا کیا ہے؟ جس پر صلاح الدین نے وضاحت دی کہ میرا مطلب مجموعی طور پر عدلیہ تھا یہ عدالت نہیں ۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کیس میں دلائل دیئے کہ عدالت کے سامنے ابھی کہا گیا آڈیو جھوٹی نکلی یہ عدالت بری ہو گی پھر کہا گیا نہیں اس عدالت پر تو اعتبار ہے ہم ایک کیس کیلئے کس حد تک جائیں گے۔ یہ ٹرینڈ ختم ہونا چائیے ، کہا یہ جا رہا ہے کہ ایک صاحب کی آڈیو پر ساری عدلیہ کمپرومائز ہے اس درخوستگزار میں اور رانا شمیم میں فرق کیا رہ گیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ پیغام یہ دیا جا رہا ہے ہاتھ تو لگاو ہم سب ججوں کو گھر چھوڑ کر آئیں گے پیغام یہ ہے جج جدہ بھی بلائیں گے۔ لاہور بھی اور مرنے کے بعد بھی نہیں چھوڑیں گے، چیف جسٹس پر حملہ کرایا جاتا ہے یہاں انکوائری کی ضرورت نہیں پڑتی ،یہاں بریف کیس میں نوٹ بھیجے جاتے ہیں انکوائری کا نہیں کہا جاتا۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ وزیراعظم کو پھانسی لگانے پر نہیں کہا جاتا عدلیہ کمپرومائزڈ ہے، سارا معاملہ آکر عدلیہ کمپرومائزڈ ہونے کا اس کیس سے شروع ہوتا ہے جسے عدلیہ پر اعتبار نہیں کھل کر خود کر یہاں کہے اِدھر اُدھر سے بات نہ کرے جن صاحب نے نہ ان کا کیس سنا، نہ کوئی اپیل ان کی آڈیو کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔