عالمی سیاست میں تو، کوئی نہ کوئی قانون کوئی ضابطہ، اور کسی نہ کسی حدتک اخلاقی اقدار بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں، مگر گزشتہ پون صدی سے ہماری سیاست کروڑوں وطن عزیز کے باسیوں کو گھمن گھیریوں میں مبتلا رکھتی ہے، سچ کہتے ہیں کہ دولت سے تخت نشینی تو حاصل کی جاسکتی ہے مگر سچے دوست نہیں بنائے جاسکتے۔
قوم کتنے عرصے سے دیکھتی آئی ہے، کہ ماضی اورحال کی دوست سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ کتنی شدومد کے ساتھ محاذ آرائی پہ تل جاتے ہیں اور اپنے محسنوں اور اپنے دوست کے خلاف کروڑوں روپے کے اشتہارات بھی لگا دیئے جاتے ہیں، کبھی تو وہی دوست سیاستدانوں ببانگ دہل ان کی دوستی کا نہ صرف بھرم رکھنے کا دعویٰ کرتے تھے، بلکہ کبھی نہ جھکنے اور نہ بکنے اور سداساتھ دینے کا قوم کے سامنے برملا اظہار کرتے تھے یہی وجہ ہے، کہ قول اور فعل کے سیاستدانوں کے اس تضاد کے مدنظر عوام کا سیاسی شعور آج کل نہ صرف بلندیوں کو چھورہا ہے، بلکہ وقت انتخاب بھوکے پیٹ والے بھوکے بٹیرے کا کردار ادا کرنے کا جذبہ لیے بیٹھے تھے، آپ کو یاد ہوگا، کہ اپنے مطلب کے لباس کو، اپنے وقت کے حکمران، اس لباس کو اتارنے کا مطلب اپنی کھال اتارنے کے مترادف قرار دیتے تھے، بالآخر عوام کی کھال اتارنے کے بعد ان کی کھال بھی اتر گئی تھی، عوام تو یہی سمجھتے ہیں کہ مخلوق خدا میں صرف ایک ہی جنس ہے، جو اپنی کھال اتارنے پہ قادر ہے، شاید آستین کے سانپ بھی ایسے ہیں اسی لیے عوام کو یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے، کہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست، سمجھ کر اور اسی نظریے اور کسی خاص مقصد کے تحت ایک پارٹی چھوڑ کر اور اسی کا نام بدل کر بھی آنے جانے والوں کو جیون کا مطلب کیا آنا اور جانا ہے، سمجھ لیاہے۔
عوام کے مفادات کو مقدم نہ رکھنے والے، اور نہ سمجھنے والوں کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے، کہ ڈاکٹر بھگوان داس، جو اپنی سیاسی زندگی میں کئی پارٹیاں تبدیل کرچکے ہیں، اور جو یہ دعویٰ کرتے ہیں، کہ وہ مودی کے بھارت اور پاکستان کو قریب لانے کے لیے خاصے متحرک ہیں، اور فعال ہیں، جس کی خاطر وہ آئے روز بھارت یاترا بھی کرتے رہتے ہیں، مگر ہماری سیاست نے تو یہ بھی دیکھا ہے، کہ سندھ کے ایک اور پارلیمانی سیکرٹری جس پر غداری کا مقدمہ تھا، اور وہ حراست میں بھی لے لیے گئے تھے، اس سکھ سیکرٹری کو ترکی کے ماضی بعید کے حکمران عصمت انونوکی سفارش پر بالآخر صدر ایوب خان کو رہا کرنا پڑ گیا تھا۔
ماضی کے ایک حکمران جن کے دور میں ریفرنڈم بھی کرایا گیا تھا، قارئین کرام اگر آپ کی یادداشت اتنی کمزور نہیں، تو انہوں نے بھی کہا تھا، کہ میں آٹھ سال حکومت کرنے کے بعد جو آٹھ سال تو نہیں حکمرانی دس سالوں سے بھی تجاوز کرگئی تھی، بیان داغا تھا، کہ دوکروڑ افراد کو نوکریاں دوں گا، خیر چھوڑیے ان دل کے پھپھولوں کو پھولنے سے کیا فائدہ ؟ آئے دن دشمن ملک کی ریشہ دانیوں سے بلوچستان کو لہولہو کردیتا ہے، اس کو بلوچستان کی ترقی سے تو کیااور کدورت ایک طرف وہ یہ بھی نہیں چاہتا، کہ عوام کی رسائی تن وتوش کو سدھارے اور علم کو سنوارنے کے لیے انہیں بنیادی اشیاء ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے، کبھی وہ بارودی سرنگیں بچھا دیتا ہے، اور کبھی پہاڑوں کی اوٹ سے معصوم اور باوفا جوانوں کو شہداء اسلام وملک وملت بنادیتا ہے۔
دوسری طرف ہم وطنوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے، کہ سینٹ میں سٹیٹ بل منظورہوگیا ہے، حالانکہ اس سے قبل دونوں متحارب جماعتوں کے بلندبانگ دعوے کس چیز کی غمازی کررہے تھے، اگر مہذب ملکوں میں ملکی مفاد کے تحت، اپوزیشن اور حکومتیں یک جان بن جاتی ہیں، تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں اس کو بھی سیاسی چال، بنادیا جاتا ہے، سابق وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں، کہ رات کو بارہ بجے انہیں اطلاع ملی کہ صبح سینٹ کا اجلاس ہے، اور میرے لیے ممکن ہی نہیں تھا، کہ میں اتنی دیر میں وہاں پہنچ جاتا، حالانکہ میرے خیال میں تو شاید یہ ناممکن نہیں تھا، یوسف رضا گیلانی بھی قومی اسمبلی کے سپیکر رہ چکے ہیں، اور انہوں نے ہائوس کو بڑی خوش اسلوبی سے چلایا بھی ہے، ادھر موجودہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی بلکہ صادق اور امین صادق سنجرانی نے حکومت کے حق میں ووٹ دے کر حکومت کا یہ ترمیمی بل، سینٹ سے منظور کروالیا، جہاں تک میرا خیال ہے، چیئرمین تو غیر جانبدار ہوتا ہے، چیئرمین سینٹ ہو چاہے، سپیکر قومی اسمبلی، عوام کو اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ چیئرمین، اور سپیکر ووٹ ڈال بھی سکتے ہیں یا نہیں ، بہرحال اب تک کئی حکمران بھی بھگتا چکی ہے، اور کئی سپیکروں کو بھی، مطلب تو یہ ہے، کہ جیون کا مطلب کیا، آنا اور جانا ہے کلمے کے نام پہ ملک لینے والوں کا نہیں، بلکہ یہ کافروں کا نعرہ ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا میں کئی بار جنم لے کر آتے رہیں گے مگر ہمارا نظریہ اسلام، اور نظریہ پاکستان یکسر مختلف ہے، کئی دفعہ حکومتیں کرنے والے، اور ایک دفعہ حق حکمرانی استعمال کرنے والے ایک دن، خدا کے حضور جوابدہ ضرور ہوں گے، کہ انہوں نے اس کی مخلوق کے لیے کیا کیا تھا؟ جیسے وہ کنبے کے سربراہ سے پوچھے گا؟،اور جس طرح کسی محکمے کا سربراہ بھی جواب دہ ہوگا، کہ اس نے اپنے ماتحتوں کیلئے کیا کیا تھا، قارئین کرام، اگر تو یہ ترمیمی بل ملکی مفاد میں ہے، تو سب ارکان کو موجود ہونا چاہیے تھا، بہانہ بنانا تو زیب ہی نہیں دیتا، مگر ایک بات کی داد دینی پڑے گی، کہ ایک دفعہ پھر سیاستدان عوام کے ساتھ سیاست کرگئے، اور بات اپنے اوپر نہیں آنے دی، مصدق ملک بھی خوش، یوسف رضا گیلانی، بھی مسرور، عمران خان بھی حالت انبساط میں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ، عوام کو ان شاء اللہ خود ہی خوش رکھ سکتا ہے، سیاستدانوں کو سمجھنے کے بارے میں حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں
جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا
سمجھوتمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے!