دوستو، دکھ کی گھڑی میں کسی کی ڈھارس بندھانے اور تعزیت کرنے کے لیے کوئی فقرہ بولنا بسااوقات الٹ اثرات کا حامل بھی ہوتا ہے اور لوگ عموماً یہ غلطی کر بھی جاتے ہیں کہ ان کے جملے غمزدہ شخص کو حوصلہ دینے کے بجائے ان کے دکھ میں اضافے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اب ایک ماہر نفسیات نے کچھ ایسے فقرے بتا دیئے ہیں کہ جو اپنے پیارے کے انتقال کے غم میں مبتلا شخص کو کبھی نہیں بولنے چاہئیں اور کچھ درست فقرے جو کسی کا غم بانٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ کیلی ایلفرو نامی اس ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ 7ایسے فقرے ہیں جو کسی کے انتقال پر اس کے اہل و عیال سے نہیں بولنے چاہئیں۔ کیلی کے بیان کردہ یہ 7فقرے یہ ہیں۔۔۔ رو مت یا پریشان مت ہوں، مرنے والا اب سکون میں ہے۔۔۔ کم از کم اسے پرسکون موت آئی۔۔۔اس نے بہت اچھی زندگی گزاری، تمہیں اس پر خوش ہونا چاہیے۔۔۔وقت کے ساتھ تمہیں یہ غم بھول جائے گا۔۔۔مرنے والا کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی موت پر تم اس طرح غمزدہ ہو۔۔مضبوط بنو اور دوسروں کو مت دکھاؤ کہ تم پریشان ہو۔۔غم میں مبتلا شخص کے سامنے اپنے کسی عزیز کی موت اور اس پراپنے احساسات اور تجربے کی کہانی بیان کرنا اور اس کا اس شخص کے عزیز کی موت سے اور اس کے غم سے موازنہ کرنا۔۔کیلی کا کہنا تھا کہ یہ 7فقرے ایسے ہیں جو بظاہر غم بانٹنے کے لیے بولے جاتے ہیں لیکن درحقیقت یہ دوسرے کے غم میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ کیلی نے 6ایسے فقرے بتائے جو کسی کے انتقال پر اس کے لواحقین سے بولنے چاہئیں۔جو کچھ اس طرح سے ہیں۔۔مجھے آپ کے اس نقصان پر بہت دکھ ہوا۔۔میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔۔اگر آپ اس حوالے سے میرے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں تو میں حاضر ہوں۔۔اگر آپ کو تنہائی چاہیے تو میں آپ کے بچوں کو باہرلے جا سکتا ہوں۔۔میں دیکھ سکتا ہوں کہ تم بہت غمزدہ ہو، میں اس غم میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔۔تم یہ چیزیں محسوس کر سکتے ہو۔۔کیلی کا کہنا تھا کہ کسی غمزدہ شخص کو پرسا دیتے ہوئے ہمیں اس کے جذبات اور احساسات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ایسے مواقع پر کچھ بھی بول دینا الٹا تکلیف کا سبب بن سکتا ہے چنانچہ کوئی بھی فقرہ بولنے سے پہلے ہمیں اس پر غور کرلینا چاہیے۔
کسی یوتھیئے نے ہمیں واٹس ایپ پر یہ عجیب سی تحریر بھیجی ہے۔۔کل رات بہت برا ہوا۔۔ میرے گھر میں چور دیوار پھلانگ کر آ گیا۔ میں نے کمرے میں سے جھانک کر دیکھا تو چور دیوار کود کر صحن میں آچکا تھا۔ میں نے انتظار کیا کہ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہو گا تو اسے پکڑ لوں گا۔ چور نے گھر کا سامان لوٹنا شروع کر دیا اور میں کمرے میں انتظار کر رہا تھا کہ وہ جیسے ہی دروازے کھولے گا، میں اس پر کمبل ڈال کر اسے پکڑ لوں گا اور پھر ایسے ہی ہوا۔۔چور سونا اور نقدی لوٹ کر ایک بیگ میں بھر چکا تھا، اب وہ میرے کمرے کیطرف آرہا تھا، میں اسے دروازے کی اوٹ سے دیکھ رہا تھا۔ وہ جیسے ہی کمرے میں آیا تو میں نے پلان کے مطابق اس پر کمبل ڈال کر اسے قابو کر لیا۔ کمبل اوپر سے ڈال کر اسے لاتوں اور مکوں سے بیہوش کر دیا۔ پھر میں نے سونے اور نقدی کا وہ بیگ چھین لیا۔اب چور کو ہوش دلایا تو چور بجائے شرمندہ ہونے کے، ایکدم بھڑک کر بولا کہ تم کو کیسے پتہ چلا کہ میں اس کمرے کی طرف آ رہا ہوں اور تم تیار کھڑے تھے؟میں نے فخریہ انداز میں بتایا کہ میں دراصل تمہیں چھپ کر دیکھ رہا تھا، تم نے جب صحن میں چھلانگ ماری تھی تو میں تب سے تمہیں واچ کر رہا ہوں۔یہ سن کر چور ایکدم چونک گیا اور کہنے لگا۔۔ کیا تم نے میری جاسوسی کی ہے۔۔ تم کو پتہ ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق کوئی شخص یا ادارہ کسی کی جاسوسی نہیں کر سکتے، یہ تو تم نے صریحاً قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔۔ مجھے غصہ آیا چور سے بولا۔۔کیا بکواس کر رہے ہو؟ میں چلایا، تم میرے گھر چوری کرنے آئے تو کیا میں تمہیں پکڑوں گا نہیں؟ یہ سن کر چور نہایت اطمینان سے بولا کہ بہتر ہو گا کہ تم اپنے وکیل سے فون کر کے پوچھ لو کہ چور کی چوری کو اگر پکڑنا ہو تو آئینی طریقے کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا، غیر آئینی طریقے سے چور کی چوری پکڑنا خود میں ایک جرم ہے۔ یہ سن کر میں بھونچکا گیا۔۔ چور نے میری حیرت نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا۔۔ میرا نقدی اور سونے سے بھرا بیگ کہاں ہے؟؟ ۔۔مجھے شدید غصہ آیا،چور کو چیختے ہوئے مخاطب کیا۔۔کیا وہ بیگ تمہارا ہے؟ اے بے شرم انسان، وہ نقدی اور سونا میرا ہے جو تم نے اس گھر سے چرایا ہے۔ یہ سن کر چور ہنس پڑا۔۔۔ اور بولا۔۔ جب تم نے مجھے پکڑا ہی غیرآئینی اور غیرقانونی طریقے سے ہے تو پھر تم یہ ثابت کیسے کر سکتے ہو کہ میں نے چوری کی ہے، اس لیے جب تک میری چوری ثابت نہیں ہو جاتی، تب تک یہ سارا مال میرا ہی ہے۔۔تحریرکا خلاصہ: اس قصے کا ’’کسی‘‘ کی منی ٹریل سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی یہ سیاسی ہے۔۔
سیانوں نے اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ یہ نکالا ہے کہ آپ جتنے بھی تنگ یا پریشان ہوں، یہ چار چیزیں کبھی مت کرنا۔۔ نمبر ایک، کسی کے ساتھ مشترکہ کاروبار مت کرنا،چاہے آپ کا بھائی یا کوئی رشتہ دار ہی کیوں نا ہو۔۔نمبر دو، جتنے بھی تنگ ہوں،پریشانی کا شکار ہوں، باہر ملک جاب کیلئے مت جانا۔۔ نمبر تین، اگر آپ صرف سادہ تعلیم ایف اے،بی اے کرنا چاہتے ہیں تو اس پر اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔بہتر یہ ہوگا کہ میٹرک کرتے ہی کوئی چھوٹا سا کاروبار شروع کردیں کاروبار کے ساتھ پرائیویٹ ایف اے بی اے کرسکتے ہیں ،اگر کاروبار کیلئے پیسے نہیں تو آپ مارکیٹنگ کا کام شروع کر دیں، آپ ہول سیل کی مارکیٹ سے مختلف چیزیں لیں اورایک دو کلومیٹر کے اندر اندرجتنی دکانیں آتی ہیں سب پر جائیں اور مارکیٹنگ کریں،چیزیں بیچیں،جتنے عرصے میں آپ نے ایف اے،بی اے کرنا ہے،اتنے میں آپ کا مارکیٹ میں ایک نام بن چکا ہوگا، جب ایف اے بی اے کرکے نوجوان نوکری کیلئے دھکے کھارہے ہونگے ،اس وقت آپ اپنے کاروبار کے مالک بن کر سفید کپڑے پہن کر ان سے ہزار درجہ بہتر زندگی گزار رہے ہونگے ایک بات یاد کرنا دنیا میں کوئی بھی انسان جاب سے امیر نہیں ہوسکتا،لکھ پتی،کروڑپتی اور ارب پتی اپنے کاروبار سے ہی بن سکتا ہے۔اور نمبر چار۔۔آپ شرم چھوڑ دیجئے یہ مت سوچئے کہ لوگ کیا کہیں گے ،کسی بھی چھوٹے سے کام کو شروع کرنے میں شرمانے کی ضرورت نہیں۔ لوگ تو صرف باتیں ہی کرتے ہیں ضرورت کے وقت کوئی کام نہیں آتا ۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نیک بننا نہیں صرف نظر آنا چاہتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔