ہالینڈ کے ڈیلٹریز ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق اس وقت ایک لاکھ 15ہزار مربع کلومیٹر زمین پانی سے بھری ہوئی جب کہ ایک لاکھ 73 ہزار مربع کلومیٹر ایسا رقبہ ہے جس پر موجود پانی سوکھ چکا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق جس علاقے میں سب سے زیادہ پانی میں اضافہ ہوا ہے وہ تبت کی سطح مرتفع ہے جب کہ سب سے بڑی کمی وسطِ ایشیا میں واقع دنیا کی سب سے بڑی جھیلوں میں سے ایک آرال میں ہوئی جو خشک ہو چکی ہے۔ محققین کا کہنا ہے دنیا میں بہت سے ساحلی علاقوں میں بھی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ وہ علاقے جو خشک زمین کاحصہ تھے اب پانی میں ڈوب گئے ہیں۔ اس میں سب سے اہم علاقہ تبت مرتفع ہے جہاں پگھلتے ہوئے گلیشئیرز سے نئی بڑی جھیلیں بنتی جا رہی ہے۔ اس تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ زمین کے وہ بہت سے علاقے جہاں پانی ہوا کرتا تھا اب ان میں بہت سے خشک ہو چکے ہیں، اس میں آرال جھیل شامل ہے۔ اس کا پانی آب پاشی کے لئے منتقل کئے جانے کی وجہ سے اب یہ تقریباً سوکھ چکی ہے۔ محققین کے مطابق لاس ویگاس کے پاس معروف جھیل میڈ میں جو امریکہ میں تازہ پانی کی فراہمی کی سب سے بڑی جھیل ہے میں بھی پانی کم ہوتا جا رہا ہے اور اس کا بھی ایک بڑا حصہ خشک ہو چکا ہے۔ بعض ساحلی علاقے بھی متاثر ہوئے ہیں اور سائنس دان اس بات سے حیرت زدہ ہیں کہ کئی علاقوں میں ساحلِ سمندر پر بھی پانی خشک ہو کر زمینی علاقہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق دبئی میں ساحلوں پر نئے لگژری ریزورٹ بنانے کی وجہ سے وہاں کے ساحل پہلے کے مقابلے میں اب کافی بڑے ہو گئے ہیں، بعض علاقے جیسے ایمیزون میں جتنا علاقہ خشک ہوا ہے اسی مقدار میں پانی کا بھی اضافہ ہوا لیکن اس کی وجہ قدرتی طور پر پانی کا بہاؤ ہے یعنی اس میں پانی کے بہاؤ سے کوئی چھیڑ چھاڑنہیں کی گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل فنڈ برائے زرعی ترقی کا کہنا ہے کہ 2025ء تک دنیا کے پانی کے وسائل کو ایسے زرعی نظام کی معاونت کرنا ہو گی جو اضافی 2.8ارب افراد کی خوراک اور دیگر ضروریات کو پور اکر سکے۔ کیونکہ ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا میں پانی کا 70فیصد زراعت، 22فیصد صنعت اور 8فیصد گھریلو استعمال میں آ رہا ہے۔ دنیا میں زراعت کے شعبے میں استعمال ہونے والے 70فیصد پانی سے ایف اے او کے مطابق 27کروڑ 70لاکھ ہیکٹر رقبے کو سیراب کیا جا رہا ہے جو دنیا میں زیرِ کاشت رقبے کا 20فیصد ہے اور دنیا میں خوراک کی پیداوار کا 40فیصد شراکت دار ہے جب کہ بقایا 80فیصد زیرِ کاشت رقبہ بارش کے پانی سے سیراب
کیا جاتا ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ بارانی کاشت کی پیداوار میں2030 ء تک 50فیصد کمی ہو سکتی ہے جس کی بنیادی وجہ موسم اور بارشوں کے نظام میں تبدیلی یا کمی ہے اور اس سے دنیا میں غربت اور بھوک کا شکار افراد کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
پاکستان کی آبادی 2030تک بڑھ کر 25کروڑ ہو جائے گی ان تین کروڑ اضافی افراد کی خوراک، پینے کے پانی اور روزمرہ زندگی کے افعال کے لئے ہمیں اضافی پانی کی ضرورت ہو گی لیکن وطنِ عزیز کا پانی کا منظر نامہ کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہا ہے۔واپڈا کی ایک دستاویز "ہائیڈرو پوٹینشل ان پاکستان" کے مطابق پاکستان میں 1951ء میں فی کس پانی کی دستیابی 5260کیوبک میٹر سالانہ تھی کم ہو کر 1000کیوبک میٹر فی کس سالانہ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ یوں پاکستان کا شمار پانی کی قلت کے حامل ممالک میںہونے لگا ہے اور ایسا صرف ملک میں پانی کے ایشوز پر اتفاق کے فقدان کے باعث ہے جس کی وجہ سے ملک میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر عرصہ دراز سے التوا کا شکار چلی آ رہی ہے اور پرانی آبی ذخیرہ گاہوں میں پانی کی سٹوریج وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی۔ ایک طرف تو ہم اپنی سٹوریج کی گنجائش نہیں بڑھا رہے ہیں تو دوسری طرف بھارت پاکستان کے حصے کا پانی چوری کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہمالیہ سے نکلنے والے دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا معاملہ اتنا حساس ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے ابتدائی سال میں صرف پانی کے مسئلے پر جنگیں ہوتے ہوتے رہ گئیں۔ اس مسئلے کے حل کے لئے پاکستان اور بھارت کے مابین 19ستمبر 1960ء میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے جس کی رو سے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج بھارت جب کہ تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت نے اپنے رنگ دکھانا شروع کر دیئے اور بیرونی سامراج کی مدد سے اس نے پاکستان کے دریاؤں کا پانی چوری کرنا شروع کر دیا۔ اس سلسلے کی تازہ مثال کشن گنگا اور رتل ہائیڈرو پاور پراجیکٹس ہیں۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 850 میگا واٹ کے رتل ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر تعمیراتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور ساتھ ہی 330 میگا واٹ کے قابلِ اعتراض ڈیزائن والے کشن گنگا ڈیم کو مکمل طور پر فعال کر دیا ہے۔ پاکستان ورلڈ بینک کو اپنے اعتراضات پیش کر چکا ہے اور بھارت نے بھی اس معاملے کے حل کے لئے ماہرین مقرر کرنے کی تجویز دی۔ورلڈ بینک نے ان درخواستوں پر اس نقطہ نظر سے خاموشی اختیار کئے رکھی کہ اس سے سندھ طاس معاہدے کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ورلڈ بینک نے خاموشی اختیار کر کے بھارت کو فائدہ پہنچایا جس سے پاکستان کا بہت نقصان ہوا۔ بھارت جس طرح سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے اس کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا ہے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر میں اتنی تعداد میں ڈیم تعمیر کر رہا ہے کہ وہ جب چاہے پاکستان کو مطلوبہ پانی سے محروم کر کے پاکستان میں قحط کا سماں باندھ سکتا ہے۔ بھارت اپنی مخصوص نیچر کی وجہ سے ایک روز ایسا قدم اٹھائے گا ضرور اور سندھ طاس معاہدہ بھی اسے ایسا کرتے ہوئے روک نہیں پائے گا۔ پورڈیو یونیورسٹی کی ایک گہری تحقیق ہمیں پہلے ہی ڈرا چکی ہے کہ آئندہ برسوں میں بحیرۂ ہند پر اور بنگلہ دیش، نیپال، برما میں تو بے تحاشا بارشیں ہوں گی لیکن پاکستان بدقسمتی سے اس نعمت سے محروم رہے گا۔ ایسے میں بھارت نے ہمارے دریاؤں کی شہ رگ دبا لی تو ہماری خوراک و زراعت کے سوتے بالکل بنجر اور خشک ہو جائیں گے۔ بھارت کی حتمی کوشش ہے کہ پاکستان آنے والے دریاؤں پر مکمل قبضہ کر کے پاکستان کو بوند بوند ترسایا اور پاکستان کی زراعت تباہ کر دی جائے لیکن اس المیے کے ساتھ ہی ایک اور سانحہ جڑا ہوا ہے جو ساری دنیا کے لئے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ دنیا کے بعض ممالک زیرِ زمین میٹھے پانیوں کو محض اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اس سے جو زیادتیاں کر رہے ہیں ان اقدامات سے دنیا میں قحط بھی پھیل سکتا ہے اور خوراک پیدا کرنے والے زرعی ذرائع بھی خطرناک حد تک سکڑ سکتے ہیں۔ پاکستان بھی متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہو گا۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے 18ممالک ایسے ہیں جو اپنی زراعت اور اجناس کی پیداوار میں اضافے کے لئے ضرورت سے کہیں زیادہ زیرِ زمین پانی پمپ کر کے فصلوں کو دے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے جاری ہے۔ اس فعل کو سرانجام دینے والے ملکوں میں بھارت، امریکہ اور چین سرِ فہرست ہیں۔ یہی تین ممالک دنیا بھر میں سب سے زیادہ گندم پیدا کر رہے ہیں۔ بھارت نے خصوصاً مشرقی پنجاب جس کی سرحدیں پاکستانی پنجاب سے منسلک ہیں گندم کی پیداوار میں بے پناہ اضافے کی غرض سے زیرِ زمین اتنا پمپ کیا ہے کہ پاکستانی پنجاب میں زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے۔ بھارت پاکستان کے پانیوں پر اس لئے ہاتھ صاف کر رہا ہے تا کہ پاکستان کی بربادی کا مکمل سامان پیدا کر سکے۔ ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین پانی کی بنا پر فساد پھیلنے سے قبل ہی تعاون کی کوئی صورت نکال لی جائے۔