یہ طاقتوروں کی دنیا ہے جس میں ان کا اپنا قانون ہے اپنے ضابطے ہیں اور اپنا اقتدار ہے۔
کوئی کمزور یہ سوال بھی نہیں کر سکتا کہ عالی جاہ! ایسا کیوں ہے؟
پوچھ بیٹھے تو ان کا قانون اس کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑ پڑتا ہے۔
زندگی اس سینہ زوری کی فضا میں کسی باز سے محفوظ ہو جانے والی فاختہ کی طرح سہمی ہوئی ہے۔ دل کی دھڑکنیں تیز کبھی تو کبھی بے ترتیب، ذہن جیسے مفلوج ‘پاؤں بوجھل اور آنکھوں کے سامنے دھند۔ کہا جاتا ہے کہ اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ کوئی نا انصافی کے ہاتھوں گھائل نہیں ہو گا کسی کی حق تلفی نہیں ہو گی، کسی کی چھت کو کوئی غنڈہ قبضہ گیر اور فریبی اس سے محروم نہیں کر سکے گا اور افسر شاہی اب نہیں چلے گی وہ اس ملک کے مظلوم عوام کی خادم ہو گی مگر وہ سورج ابھی طلوع نہیں ہوا جو ان محکوموں کو مظلوموں کو نئے سویرے کی ایک جھلک دکھا سکے تاریکی ہی تاریکی ہے جو روز بروز گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔
ہر امید کے بعد ایک اور امید دامن تھام لیتی ہے۔ خواہشوں کے سمندر میں ایک طغیانی ہے ‘ بے چینی ہے جسے دیکھنے والے نہیں دیکھ رہے اور نہ ہی محسوس کر رہے ہیں۔ ان کا زیر دستوں پر مکمل غلبہ ہے ان کے پاس طاقت ہے جس کے نشے میں وہ مدہوش ہیں انہیں کوئی سمجھانا بھی چاہے تو ممکن ہی نہیں۔ یوں ایک اعصاب شکن ماحول جنم لے چکا ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے دور کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ یہ سماج اب چھینا جھپٹی کی راہ پر گامزن ہو رہا ہے۔ پیار ، محبت اور اخلاق سب ہوا ہوئے۔ لہجے بدل گئے ، سوچ بدل گئی اور منظر بدل گئے۔
کیا اہل اقتدار کو کچھ خبر نہیں کہ یہ منظر دلخراش آگے چل کر کسی بڑی خوفناکی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ وہ رت نہ رہی وہ بہار نہ رہی اور وہ خزاں نہ رہی
کہ جب ہم اٹھکیلیاں کرتے تھے کوئی غم نہ تھا ، کوئی پریشانی نہ تھی کیونکہ آج کی طرح دھوکا نہیں تھا فریب نہیں تھا خون بھی سفید نہیں تھا حاکم بھی کچھ درد اپنے دل میں رکھتے تھے۔ وہ کہاں گیا سب‘ کس نے نشیمن پے بجلیاں گرادیں کس نے حرص و ہوس کی آگ روشن کر دی۔ کس نے دولت سمیٹنے کا راستہ دکھا دیا کہ جو با اختیار ہے‘ زر کا پجاری ہو گیا۔ کمزوروں کے حصے پر قابض ہو کر ان کا جینا محال کر دیا۔ آخر کار یہ لوگ پریشان حال لوگ فاقے کرنے والے لوگ انصاف کو ترستے لوگ ظلم سے تنگ آئے لوگ ہر کسی کو پہچان ہی لیں گے پھر اس سے پوچھیں گے کہ تو نے ہر آسائش ہر عشرت اور ہر آرام کو اپنی تحویل میں کیوں لیے رکھا۔
فی الحال اداس کر دینے والی خزاں نے ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر یہ کب تک چھائی رہے گی اسے اسی طرح نہیں رہنا‘ یہ موسم ضرور بدلے گا! شرط یہ ہے کہ مایوس نہیں ہونا آگے بڑھنا ہے منزل انہیں ہی ملتی ہے۔ جو چلتے ہیں ساکت و جامد لوگوں سے منزلوں کی جانب جانے والے راستے کبھی مانوس نہیں ہوتے لہٰذا وہ رکے رہتے ہیں۔ عزم و حوصلہ باقی رہے جوش و جذبہ سرد نہ پڑے پھر ہو گا ضرور نیا سویرا‘ جس میں حالات بدلیں گے۔ خوشی کے نغمے گائے جائیں گے۔ کسانوں اور مزدوروں کے چہرے دمک دمک جائیں گے۔ گلستانوں میں باغوں میں اور باغیچوں میں بلبلیں بھی اور فاختائیں بھی بے خوف ہو کر اپنی اپنی بولیاں بول رہی ہوں گی۔ کوئی نا انصافی نہیں کر سکے گا کسی میں یہ جرأت نہیں ہو گی کہ وہ کسی کا حق سلب کر سکے۔ ترازو انصاف کا برابر ہو گا کسی سے کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔ ظلم و جبر کا دور ختم ہو جائے گا۔
اگرچہ یہ ایک خواب ہے اور خواہش بھی مگر جدوجہد کرنے سے خیال و خواب مجسم ہو جایا کرتے ہیں لہٰذا قدم لڑکھڑائیں نہیں تو منزل پر پہنچ ہی جائیں گے۔ جب تک خواہشوں کا جہاں دکھائی نہیں دیتا، جینا پڑے گا! ہاں جینا پڑے گا جی رہے ہیں مشکلات و مسائل نے ادھ موا کر دیا تو کیا ہوا ایک روز یہ سب نہیں ہو گا ان دنوں جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ خزاں کی ویرانی ہے درختوں کی ٹہنیاں نرم و ملائم شگوفوں سے محروم ہیں مگر ایسا تادیر نہیں ؟ بہار آئے گی ضرور آئے گی پھر چمن مہکے گا۔ زندگی کو ایک توانائی میسر آئے گی۔
یہاں ہمیں اپنا بچپن یاد آگیا کہ جب ہم گاؤں میں رہتے تھے تو اس موسم میں ہر ذی روح ٹھٹھرٹھٹھر جاتا۔ ہر طرف خاموشی ہوتی مگر بیلنے چل رہے ہوتے جہاں سے گڑ شکر تیار کرنے کی خوشبو ہر سمت پھیل رہی ہوتی۔ بہار آتی تو شاخوں پر نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہوتیں سبزو شاداب پتیاں نمودار ہو کر ماحول کو تازگی دے رہی ہوتیں کیا دن تھے اور کیا لمحے تھے رہ رہ کر اب یاد آتے ہیں۔ بہرحال یہ زندگی ہے اس میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں وقت کا دھارا ایک ہی سمت میں نہیں بہتا کبھی آنسو تو کبھی قہقہے اس کا حصہ ہیں لہٰذا آج غم و الم نے ہمیں ہر طرح سے گھیر رکھا ہے تو کل یہ نہیں ہوں گے۔ یہ جو ہمارے اوپر شروع دن سے حکمران مسلط ہیں اور آئندہ بھی رہنا چاہتے ہیں کو خود کو بدلنا ہو گا آخر کب تک وہ لوگوں کو دبانے اور جھکانے کی منصوبہ بندیاں کرتے رہیں گے کب تک ان کی رگوں سے خون کشید کرتے رہیں گے ان کے جسموں کو ناتواں بناتے رہیں گے۔ یہ جاگیں گے یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی مسلسل سوتا رہے اسے زندہ رہنے کے لیے اٹھنا ہو گا آگے بڑھنا ہو گا وگرنہ اسے دکھ بھری زندگی گزارنا ہو گی پھر اسے یہ نہیں کہنا کہ اہل اختیار بڑے سنگ دل ہیں جو جینے ہی نہیں دیتے اس کی راہ کو مسدود کر رہے ہیں اسے یہ بات یاد رکھنی چاہیے بغیر جدوجہد کے خواہشوں کے چراغ نہیں جلتے!