اسلام آباد : جسٹس مظاہر علی نقوی نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے دیے گئے نوٹس کے جواب میں استدعا کی ہے کہ ان کے خلاف جاری اظہارِ وجوہ کا نوٹس واپس لیا جائے اور ان کی آئینی درخواستیں تین رکنی کمیٹی کے سامنے رکھی جائیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے جواب کی نقول چیف جسٹس، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن کو بھی بھجوائی ہیں۔ اس جواب میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں 20 اور 30 نومبر 2023 کو دو آئینی درخواستیں دائر کی تھیں جن کی جلد سماعت کے لیے متفرق درخواست بھی دائر کی لیکن مقدمہ نہیں لگا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ اسسٹنٹ رجسٹرار نے پوچھا میں اپنی درخواست کی پیروی چاہتا ہوں یا نہیں۔ رجسٹرار کو اختیار نہیں کہ آئینی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کرے۔
جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئینی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر نہ ہونا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’قانون کے مطابق ججوں کی تین رکنی کمیٹی ہی درخواست کا جائزہ لے سکتی ہے۔
جسٹس نقوی کا کہنا ہے کہ ان کے وکیل نے کبھی نہیں کہا تھا الزامات واضح ہونے کے بعد قانونی اعتراض نہیں کریں گے۔ میری سپریم کورٹ میں تعیناتی کی مخالفت والے اعتراض پر چیف جسٹس نے وضاحت کی تھی اور ان کی وضاحت کے بعد صرف اس اعتراض سے دستبرداری اختیار کی تھی۔
جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اعتراض واپس لینے کا مطلب یہ تھا کہ جوڈیشل کونسل غلطی تسلیم کرتے ہوئے اظہارِ وجوہ کا نوٹس واپس لے گی۔جسٹس نقوی نے کہا ہے کہ وہ 20 نومبر کو دائر کی گئی پہلی آئینی درخواست کی بھرپور پیروی کریں گے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک متفرق درخواست بھی دائر کی ہے جس میں اپنے اس جواب کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کی گئی ہے۔درخواست میں بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نوٹس کی کوئی آئینی وقانونی حیثیت نہیں اور انہیں یہ اختیار نہیں کہ وہ پوچھیں کہ مقدمے کی پیروی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔