یہ اسی کی دہائی کی بات ہے جب طلبہ سیاست میں عسکریت پسندی اپنے عروج پر تھی۔ ہمارے ایک بہت تگڑے دوست طارق صاحب اپنے کسی کزن کی حمایت میں لڑائی کرنے ایف سی کالج جا پہنچے۔ مخالف دھڑے کو انکی آمد کا اندازہ تھا، شائد کزن صاحب اس قسم کی کوئی دھمکی بھی دیکر آئے تھے۔ طارق صاحب اپنے کزن اور دو ساتھیوں کی مدد سے جونہی کالج گراؤنڈ کے قریب پہنچے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ طارق پارٹی بھی مسلح تھی۔ کئی منٹ تک کراس فائر چلتا رہا۔ پھر اچانک کزن صاحب کی آواز گونجی۔’اوئے طارے گولیاں مک گیاں نے‘۔(طارق گولیاں ختم ہو گئی ہیں)۔ مخالف پارٹی شائد اسی لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔ انہوں نے طارق پارٹی پر ڈنڈوں، ہاکیوں اور آہنی راڈوں سے بھرپور حملہ کیا اور ہمارے یار کو اس قدر تشد د کا نشانہ بنایا کہ اس کے اثرات ساری زندگی ان کی چال پر اثر انداز رہے۔
واقعہ سنانے کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ لڑائی چاہے جس بھی قسم کی ہو اس کو طاقت کے بجائے حکمت عملی اور بھر پور تیاری سے لڑنا چاہیے اور کسی نادان کے پیچھے لگ کر کسی بھی فیصلہ سے گریز کرنا چاہیے۔
ماضی میں ہم نے دیکھا کہ بھرپور عوامی حمایت کے دعویدار پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب اور ان کے سرپرست اعلیٰ کو کس طرح مختلف سیاسی محاذوں پر پسپا اور شرمندہ ہونا پڑا۔ بجائے اس کے کہ خان صاحب اور ان کے سرپرست اپنی کمی، کوتاہی اور کمزوری پر غور کرتے اور اس کو رفع کر کے آگے کی سیاسی حکمت عملی ترتیب دیتے، یہ اپنی پرانی ڈگر پر ہی قائم رہے اور مسلسل ناکامیوں کے بعد نوبت سیاسی خودکش حملہ تک پہنچی ہوئی نظر آتی ہے۔
حکومت کے حصول کے لیے سمجھوتوں، حکومت چلانے کے لیے ناکام حربوں، اپنی حکومت کے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد سے مناسب انداز میں ڈیل کرنے کی ناکامی،قومی اسمبلی سے استعفے دینے، ایک جھوٹے بیانیے پر تحریک چلانے کی کوشش کرنے اور دو مرتبہ انتہائی بھونڈے انداز میں لانگ مارچ کرنے کی کوشش جیسی باتوں کا ذکر تو اس وقت رہنے ہی دیا جائے تو بہتر ہے لیکن بغیر کسی تیاری اور مشاورت کے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے اور باقی دو اسمبلیوں سے مستعفی ہوجانے کے اعلان پر کچھ تو بات ہونی ہی چاہیے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ خان صاحب بنیادی طور پر ایک بڑھک باز انسان ہیں، ان کا حقیقت میں ایسا کچھ بھی کرنے کا قطعی ارادہ نہیں۔ یہ اعلان تو انہوں نے صرف ایک ناکام لانگ مارچ سے جان چھڑانے کے لیے کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس ناکام لانگ مارچ کی تیاریاں کئی ماہ پہلے سے جاری تھیں اور اس سلسلہ میں لاکھوں لوگ اکٹھے کرنے کے دعویدار بھی تھے لیکن جب اس دعوے کو حقیقت کا رنگ دینے کا وقت آیا توچند ہزار کی ایک خفیف سی تعداداکٹھی کر پائے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ لانگ مارچ کی ناکامی کی خفت مٹانے کے چکر میں انہوں نے ایک زیادہ بڑی مصیبت اپنے گلے ڈال لی ہے۔ یعنی چوہے کو بھگانے کے لیے بلی لائے اور بلی کو بھگانے کے لیے شیر گھر میں لے آئے ہیں۔
بالفرض عمران خان صاحب نے کوئی بلف نہیں مارا اور وہ وہی کرنے کے خواہشمند ہیں جس کا انہوں نے اعلان کیا ہے تو بھی کامیابی ان سے میلوں دور نظر آتی ہے۔ان کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ناصرف پی ڈی ایم کے پاس ایک مضبوط حکمت عملی موجود ہے بلکہ ان کی اپنی صفوں میں بھی یکجہتی کا فقدان ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کی اپنی پارٹی کے ایم پی ایز کی ایک بڑی تعداد اسمبلیاں توڑنے یا مستعفی ہوجا نے کے خیال کے ساتھ متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسمبلیاں تو ویسے ہی اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ ان آخری چند ماہ میں وہ اپنے اپنے حلقوں میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام کرا کر عوام کی حمایت حاصل کریں اور اپنے نام کی تختیاں جگہ جگہ لگوا سکیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ جس طرح ماضی قریب میں خان صاحب کے منصوبے پے در پے ناکام ہوئے ہیں اسی طرح اگر یہ سیاسی شہادت حاصل کرنے کا منصوبہ بھی پٹ کیا تو وہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔
دوسری طرف پنجاب میں خان صاحب کا واسطہ ایک گھاگ سیاستدان پرویز الٰہی سے پڑا ہوا ہے۔ ویسے تو چوہدری صاحب نے بیان دیا ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ عمران خان کی امانت ہے لیکن اگرکسی بھی وقت اس بیان کو ایک سیاسی بیان قرار دے کر ’مٹی پاؤ‘ کا نیا سیاسی بیانیہ آ جاتا ہے تو یہ کوئی ایسی کوئی غیر متوقع بات نہ ہو گی۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر سیاسی جوڑ توڑ کے وقت پی ڈی ایم اور عمران خان صاحب کی پیشکش میں فرق صرف اتنا تھا کہ پی ڈی ایم اس وقت قبل از وقت انتخابات کرانے کے موڈ میں تھی جبکہ خان صاحب نے پرویز الٰہی صاحب کو اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے اور اس دوران انہیں کو وزیر اعلیٰ برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ یعنی پرویز الٰہی صاحب نے اس وقت صرف چند ماہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے عمران خان صاحب کا ساتھ دیا تھا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں یہ سب چھوٹے چھوٹے مفادات کے معاملات ہیں کوئی نظریہ یا دوستی کسی بھی طوراہمیت نہیں رکھتے۔
اس کے علاوہ پرویز الٰہی صاحب کو یہ بھی یقین ہے کہ اگلے انتخابات میں اگر پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں اس تعداد میں سیٹیں لینے میں کامیاب ہو بھی گئی کہ وہ یہاں اپنی حکومت قائم کر سکیں تو بھی وہ تو کسی بھی صورت میں وزارت اعلیٰ کے لیے ان کے امیدوار نہیں ہونگے۔ اس کے علاوہ بھی وہ اپنے عہدہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مبینہ طور پر کئی قسم کے مفادات اٹھانے میں مصروف ہیں اور نہیں چاہیں گے کہ یہ سلسلہ فوری طور پر رک جائے۔
اگرچہ خیبر پختونخوا کے بھی کئی حکومتی ایم پی ایز پی ڈی ایم کے ساتھ رابطہ میں ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ کسی بھی طور صوبائی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آ جائے تاکہ وقتی طور پر ہی سہی ان کی کرسی تو بچ جائے۔ لیکن پنجاب میں تو صورتحال کسی بھی طور عمران خان صاحب کے حق میں جاتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔ ایک طرف تو تمام ایم پی ایز اس تجویز سے متفق نہیں اور دوسری طرف چوہدری پرویز الٰہی پر بھی اندھا اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
عمران خان صاحب کے اس فیصلہ میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی کتنی مشاورت شامل ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن میرے ذاتی خیال میں یہ بیان خان صاحب کے لیے شرمندگی اور ایک اور یو ٹرن کا باعث بنے گا۔ان کی سیاست تو پہلے سے ہی الجھاؤ کا شکار تھی اور اب تووہ اپنے آپ کو اس سیاسی مقام پر لے آئے ہیں کہ کہا جا سکتا ہے ان کے آگے کنواں ہے اور پیچھے کھائی۔شائد اسی صورتحال کو بھانپتے ہوئے خان صاحب نے ایک اور یو ٹرن لیتے ہوئے ان تمام پارٹیوں اور افراد سے بات چیت کرنے کی پیشکش کی ہے جن پر ماضی میں وہ سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ نریندر مودی سے تو بات کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے نہیں۔
سیاست میں معجزات کا ہونا کوئی ایسی اچنبھے والی بات نہیں۔ خان صاحب کی سیاست کو بھی اب کو ئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے ورنہ لگتا تو یہ ہے کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی طرح اس کی سیاست نے بھی ان کو گڈ بائے کہہ دیا ہے۔
!سیاست نے بھی عمران خان کو گڈ بائے کہہ دی
11:30 AM, 4 Dec, 2022