تازہ ہوا کا ایک جھونکا

آج دنیا پر مغربی تہذیب بے تاج بادشاہ کی طرح بلاشرکت غیرے حکمران ہے۔ پرشکوہ دمکتے شہر، علم وفن، ایجادات واختراعات، سٹیلائٹ، مواصلاتی ذرائع کی برق رفتاری، ڈیجیٹل ہنگام، دو انگلیوں کی دسترس میں پوری دنیا، زبردست اصطلاحات کے ذریعے دل و دماغ نظریات مٹھی میں! انصاف، معاشی خوشحالی، آزادیئ اظہار، مساوات، حقوق، فنونِ لطیفہ (اصلاً کثیفہ) روشن خیالی، ترقی!مادہ و قوت کے سوا ہر عقیدے، قدر کے منکر، ان کہا دعویئ الوہیت و ربوبیت۔انسان ایک برق رفتار بے روح روبوٹ بن گیا۔ گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے۔ تمام اسباب سے ماورا بالا ترین غیبی قوت، رب تعالیٰ، جس کے ہاتھ میں کائنات کی زمامِ اقتدار ہے۔ اس کے ہر تصور سے دنیا کو تہی دامن کرنے پر مغربی جنگجویا نہ، ہذیانہ کیفیت سے برسرپیکار ہوگئے۔ ہر شعبہئ زندگی سے تصورِ خدا نکالنے کواسلحہ بردار فوجوں کو اذن ِہلاکت دے کر جا بجا مامور کیا۔ جس میں سبھی قابل ذکر عالمی قوتیں یک جان، یک زبان ہوکر اپنے اپنے دائرہ اختیار میں دامے، درمے، سخنے، قدمے ٹوٹ پڑیں۔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں؟ ایسے ہر کس و ناکس کو گولیوں، تازیانوں، زندان خانوں، عقوبت خانوں کی نذر کرکے ان پر دہشت گردی، انتہاپسندی، بنیاد پرستی، قدامت پرستی کے لیبل چسپاں کردیے۔ یہ کوڑا کرکٹ کی طرح نگاہوں سے اوجھل اجتماعی قبروں میں رزقِ خاک بنا دیے گئے۔نائن الیون کے مارے جانے والے 3 ہزار پر وہ گھن گرج بپا کی، انصاف کی دہائیاں دیں، کہ اقوام متحدہ نے جو کشمیر فلسطین پر دھتورا پیئے پڑا تھا، بلاتفتیش ایک گھنٹے میں قرارداد پاس کرکے دو بلڈنگوں کا ملبہ پوری مسلم دنیا پر گرا دیا۔
ایجنڈا محدود نہ تھا۔ انسان سے انسانیت کی حقیقت چھین کرانسانیت پسندی، آزادی کے نعرے دے کر ایک نئی مخلوق کا ڈول ڈالا۔ دنیا سجے سنورے ویرانے میں تبدیل ہوچکی، جہاں دیوانے ہمہ رنگ حلیوں میں پھرتے ہیں۔ انسان کو صرف دو اصناف میں پیدا کیا گیا تھا، مرد اور عورت۔ (تیسری صنف جو دنیا میں کم وبیش صرف 0.018 تا 0.5 فیصد بیان کی جاتی ہے۔ انٹرسیکس یا ہرما فرو ڈائٹ، پیدائشی نقص کی بنا پر۔) مگر آج تنوع تلاش کرتے بے شناخت بے جہت مغرب نے 12 اقسام کے جوڑے بنا دیے۔پیدائشی صنف سے بیزار ’صنفی اظہار‘، خللِ دماغی ان کا فخر ہے۔
قطر فٹ بال ورلڈ کپ مسلم دنیا اورعرب ملک میں کھیلا جانانرالا تجربہ ثابت ہوا۔قطر نے دنیا کو حیران اور مغربی چودھریوں کو بے انتہا پریشان، حواس باختہ کردیا۔ مغربی ہولناک تہذیبی بدعات (جنہیں وہ اپنا عظیم سرمایہ سمجھتے تھے۔) یوں قطر میں منہ کی کھائیں گی، انہیں تصور، گمان تک نہ تھا۔ ہر ورلڈ کپ کا طرہئ امتیاز منشیات، جوا، لاٹری، شراب، عریانی، بدکاری، فحش برملا مناظر، دیوانے مجمعے، عیش وطرب رہا۔ مگر یہاں منظر یکسر بدل گیا۔ مغرب کی ساری دکھتی رگیں چھیڑ دی گئیں۔ وہی سدومیے، بحر مرداریے، ٹرانس جینڈریے جن کی چھچھوندر مغرب ہر حلق سے گزارنے کے درپے تھا، جس پر ہماری سیاسی جماعتوں نے ایکٹ بناکر پاس کردیا۔اس اخلاقی تعفن پر مبنی فلم جمعۃ المبارک پر ریلیز فرمانے کا وزیراعظم نے اذن دے دیا۔ چیف جسٹس صاحب بھی ہمنوارہے۔ ملاحظہ فرمائیے قطر نے ڈنکے کی چوٹ، ورلڈ کپ پر آنچ آنے کے خطرے اور مغرب کی دشنام وملامت سے بے خوف اعلان فرما دیا کہ قطر میں اس پر جیل، جرمانہ اورسزائے موت تک (حسبِ گناہ) لاگو ہوسکتی ہے۔
ان (مخبوط الحواس، شہوانی انتہاپسندوں، صنفی دہشت گردوں) کے لیے یہاں گنجائش نہیں۔ مغرب کی تیاری تھی کہ وہ قوس قزح کے نشان (سدومی علامت) والے بازو بند پہنیں گے۔ ڈنمارک، بلجیم سمیت 9 ممالک تیار بیٹھے تھے۔ ٹورنامنٹ کے ’سرکاری سفیر‘، قطری سابق بین الاقوامی کھلاڑی خالد سلمان نے ہم جنس پرستی کو خلل ِدماغ قرار دے دیا۔ (جرمن نشریاتی ادارے کو بیان دیتے ہوئے۔) Gay Rights کے نام پر وحشت زدہ، انتشارِ فکری کے مریض قطر میں بدتہذیبی کے جھنڈے گاڑنے سے ’محروم‘ کردیے گئے۔ قطر ٹورنامنٹ کے خلاف یہیں سے مغرب کے شدید تنقیدی حملوں کا آغاز ہوگیا۔ انسانیت کی شرافت حیا تقدس پاکیزگی وقار کو داغدار، لہولہان کرنے والے سیخ پا ہو گئے۔
عذابِ دانش …… کہ جس کے ہر نکتہئ حکیمانہ میں پنہ گیر ہے حماقت!/عذابِ کثرت…… کہ آدمی ہے ہجوم کے درمیان تنہا؟ /کہیں مروت، نہ ہے محبت نہ آدمی کا سا کوئی رشتہ/نہ آدمی کا سا کوئی جذبہ نہ دل کو لگتے دو بول میٹھے/نہ پرخلوص آنسوؤں کے قطرے!/ دلوں کی دنیا اجڑ کر چکی ہے۔
قطر ورلڈ کپ نے دنیا کو اسلام کا تہذیبی حسن، اقدار وروایات دکھانے کا اہتمام کیا۔ شراب کے بغیر عالمی کھیلوں کا تصور بھی محال تھا۔ لباس میں حیا کا قرینہ لازم کیا، سٹیڈیم اور اس کے گرد ونواح میں شراب کی بندش لاگو تھی۔ مغربی تہذیب کے ان تین لوازم کی ممانعت نے ان ممالک میں (ان کہی) غم وغصے کی لہر دوڑا دی۔ سو بڑے نشریاتی اداروں نے بہانے بہانے خوب خبث باطن نکالا۔ افتتاحی تقریب جسکے لیے شائقین بے قرار بیٹھے تھے، بی بی سی نے نہیں دکھائی۔ رپورٹنگ اور بروقت آگاہی کے بجائے وہ منہ پھلائے بیٹھا رہا۔ اگرچہ سب سے زیادہ ٹکٹ یورپی ممالک نے خریدے مگر قطری پالیسی کے غیرمتوقع اعلان پر وہ بگڑ بیٹھے۔فرنچ شہروں بشمول پیرس اعلان کیا گیا کہ وہ بڑی سکرینوں پر میچ نہیں دکھائیں گے۔
قطر پر تنقید کی بوچھاڑ کو عرب دنیا میں حیرت اور دکھ سے دیکھا گیا۔ یہ تکبر اور نسلی امتیازتھا۔ دوحہ سے ایک فرانسیسی اینکر سے لائیو پروگرام میں یہ پوچھا گیا کہ آخر آپ کو کن مسائل کا سامنا ہے؟ تو اس کے پاس کوئی مناسب جواب نہ تھا ماسوا یہ کہ دوحہ میں مساجد بہت ہیں! سٹیڈیم کے شاندار، جدید ترین، مبہوت کن مناظر چھوڑکر نیویارک ٹائمز کے رپورٹر نے 60 ہزار افراد کی وسعت والا جگمگاتا منظر چھوڑ کر یہ ٹویٹ کیا: 12 سال بعد چند گھنٹوں میں ورلڈ کپ شروع ہو رہا ہے۔ یہ بھی بڑا کمال ہے کہ یہاں ہو رہا ہے جبکہ البیت ورلڈ کپ سٹیڈیم میلوں تک پھیلے ملبے اور ریت میں واحد بلڈنگ ہے۔‘ قطر کی باکمال ترقی اور جدید ترین شہر فلمانے، سنانے، دکھانے کی نسبت اندر تک جلے بھنے کو یہ واحد تبصرہ ملا!
مغربی میڈیا قطر کو وحشی، غیرمتمدن ملک دکھانا چاہتا تھا۔ اسلام کا تہذیبی جمال اور اس پر فخرواعتماد (جسے مغرب نے دنیا سے ہمیشہ چھپاکر بدترین رنگ اجاگر کیے۔) پورے ورلڈ کپ میں جابجا نمایاں ہے۔ اس ایونٹ کا افتتاح امیر قطر نے اپنے باپ کا ہاتھ چوم کر کیا۔ یہ ایمانی تمدن کی تہذیب ہے۔ مغرب اپنے باپ کا نام تک نہیں جانتا،ہاتھ چومنے کی لگژری (عیاشی) ان کا مقدر کہاں!
تماشائیوں کو گرویدہ کر دینے والی سحر آمیز چیز تلاوتِ قرآن تھی جسے دنیا کے بہت سے لوگوں نے شاید پہلی مرتبہ یوں سنا ہو۔ (فرانس کا ایک بڑا موسیقار صرف تلاوت سن کر ایمان لے آیا تھا۔) سورۃ الحجرات آیت 13 اپنی آفاقیت کے ساتھ اسلامی اقدار کا حسن بیان کر رہی تھی۔ ’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘
عزت وذلت کے عالمی پیمانے چکناچور کرکے سیرت وکردار کی پاکیزگی اور عظمت کا حقیقی معیار سامنے لا رکھا۔ افتتاحی تقریب پر چھایا رہنے والا نمایاں کردار ایک 20 سالہ معذور قطری نوجوان غانم مفتاح کا تھا جس کا پورا نچلا دھڑ ایک بیماری کی وجہ سے تھا ہی نہیں۔تقریب میں ہر جگہ موجود نظر آیا۔ تلاوت بھی اسی نے کی۔تقریب میں (ماڈل گرلز یا حسیناؤں کی نسبت) ہالی ووڈ کا آسکر ایوارڈ یافتہ امریکی اداکار مورگن فری مین کا انتخاب بھی خوب رہا اسلامی تہذیب کے لیے سراپا احترام بڑی عمر کا یہ شخص۔ تلاوت پر اس کا تبصرہ یہ تھا کہ: ’میں نے بہت ہی خوبصورت چیز سنی ہے جو صرف غنایت نہیں، ایک پکار تھی، اس تقریب کی طرف مدعو کرتی۔‘ (امریکی سیاہ فام ہونے کی بنا پر اس آیت کی معنویت یقینا بہت بڑھ جاتی ہے اس کے لیے!) جستجوئے حق اس شخص میں نمایاں ہے۔
بعض ہوٹلوں کا یہ اہتمام تھا کہ آنے والوں کو اسلامی تعلیمات کے لیے خصوصی رہنمائی فراہم کرتے ہیں اگر وہ چاہیں۔ (ہم اپنی اسلامی تہذیب پر شرمسار رہتے ہیں اور گوروں سے بڑھ کر ’ترقی پسند‘ بن کر دکھاتے ہیں!) یہ اسوہئ فاروقیؓ ہے۔ روم ایران کی فتوحات، (جو اپنی وقت کی امریکا جیسی سپر پاورز تھیں) کے بعد کہیں ادنیٰ ترین مرعوبیت محسوس کی تو یاد دلایا: ’اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت عطا کی۔ اگر ہم اسلام کے سوا کہیں اور عزت تلاش کریں گے، اللہ ہمیں ذلیل کردے گا۔‘