لاہور: چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے کہ وکلا ء کا ججز کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنا ، لڑائی جھگڑا کرنا غلط عمل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء کو علم ہونا چاہئے کہ ججز سے کس طرح پیش آنا چاہئے ۔
چیف جسٹس آف پاکستان گلزاراحمد لاہور میں عدلیہ اور وکلاء کے کردار پر سیمینار سے خطاب کررہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ وکلا کا کام ججز کی معاونت کرنا اور انہیں قانون کے متعلق بتانا ہے اور جب تک یہ اقدامات نہیں ہوں گے،حالات بہتر نہیں ہوسکیں گے معاشرے میں انصاف نہیں قائم ہوسکے گا ۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکلا کے مسائل کو سنا جائے،مل بیٹھ کر ان کا حل تلاش کیا جائے انہوں نے کہا کہ ملک میں ایسےحالات نہیں جس سے مسائل پیدا ہوں،اگر ہیں تو مقابلہ کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کو شہریوں کوحق دینے میں دیر نہیں کرنی چاہئے ہر شہری کو آزادانہ حقوق ملنے چاہئیں،اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ قانون بناناہمارا کام اورمعاملات کو نمٹانا ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ باتوں کے حل کیلئے آئیں،بیٹھیں اور مل کر مسائل حل کریں اگر اس طرح کے مزید سیمینار ہوں تو وہاں بہت سی دل کی باتیں ہوں گی ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گلےشکوے ہونے چاہئیں لیکن مہذب انسان کی طرح انہیں حل کرنا چاہئے۔ہم چاہتے ہیں مزید بہتر ججز بنیں اور عدالتوں میں انصاف کا بول بالا ہو ۔
ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کے معاملے میں چیف جسٹس کا کوئی کردار نہیں جوڈیشل کمیشن جسے چاہے جج بنائےجسے نہ چاہےوہ نہیں بنے گا ۔یہ ایک پراسیس ہے اور اس میں کوئی آزمائش نہیں ہے ۔ جوڈیشل کمیشن سےججزکی سلیکشن کےمعاملے میں بہت مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ اب جوڈیشل کمیشن 4،3 گھنٹے بیٹھا رہتا ہے،معاملات پر غور وفکر کرتا ہے اور ایسا نہیں ہوسکتا چیف جسٹس جو بات کہہ دے تو وہی بات لاگو بھی ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہر ایک کو جوڈیشل کمیشن میں بات کرنے کا حق ہے۔وکلا کے نمائندے جوڈیشل کمیشن میں وہ بات کریں جس کا حق انہیں دیاگیاہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں وکلا کے ساتھ سائلین کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے ۔چیف جسٹس ہائیکورٹ اپنی ماتحت عدالتوں سے رپورٹس لےکرمعاملات بہتر کریں۔انہوں نے کہا کہ لاہور کی نسبت اسلام آباد ہائیکورٹ میں مسائل زیادہ ہیں۔
میں نے لاہور کی عدالتیں بھی دیکھی ہیں اور اسلام آباد کی عدالتوں کو بھی دیکھا ہے،جب کیسزعدالتوں میں چلے جائیں اور تاریخ مل جائےتو انتظار کرنا چاہئے ۔
ججز صاحبان کے پاس بہت سے کیسزہوتے ہیں جن پر روزانہ سماعت نہیں ہوسکتی ،وکلا برادری کو ججمنٹ کا بھی سامنا ہے، دیکھنے کی بات یہ ہے وکلا دیکھیں اصل کیس کیا ہے اور جھوٹا کیس کونسا ہے ۔ عدالتوں میں کئی بار جعلی کیسز بھی داخل کرادیئے جاتے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں ماحول ایسا ہے کہ کسی شخص کادوسرےشخص سے جھگڑاہو جائےتووہ کیس داخل کردیتا ہے عدالتوں میں سب سے بڑی مشکل اصل کیسز پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔