دسمبر ہمارے کیلنڈر کا آخری مہینہ ہے یہ ہم پر بھاری ہوتا ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سال کے آخر میں جب ہم اپنی کارکردگی کی سٹاک لسٹ چیک کر رہے ہوتے ہیں تو اس میں ہمیشہ فائدہ کم اور خسارہ زیادہ ہوتا ہے لیکن دوسری تاریخی وجہ یہ ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہمارا مشرقی بازو کاٹ دیا گیا تھا سقوط ڈھاکہ ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے جب پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔ افسوس یہ ہے کہ اس سانحہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ ہماری قومی قیادت آج بھی حقائق پر پردہ ڈالنے کی اتنی ہی ماہر ہے جتنی سقوط ڈھاکہ کے وقت تھی۔ مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے سے ایک دن پہلے اگر آپ ریاست کے آئینی سربراہ جنرل یحییٰ خان کے بیانات کا جائزہ لیں تو یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ دشمن کو بھاگنے کی مہلت یا چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی مگر حقیقت اس کے برعکس تھی اس لیے جب قوم کو سقوط ڈھاکہ کی خبر دی گئی تو اس نے ناقابل یقین حد تک بچے بچے کو خون کے آنسو رلا دیا مگر سیاسی اور جنگی قیادت پھر بھی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ پرانے زخم کریدنے کا مقصد یہ ہے کہ بتایا جائے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا۔
اس وقت آپ اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں حکومتی وزراء کے بیانات یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ حکمران جماعت نے قوم کو بہت بڑے طوفان سے نکال کر محفوظ اور خوشحال بنا دیا ہے حالانکہ معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ مہنگائی اور معاشی بدحالی نے عوام کو دوسرے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے مگر مقتدر طبقہ شاید کسی ساؤنڈ پروف بنکر میں خلوت نشین ہیں ان تک عوام کی چیخیں نہیں پہنچ رہیں۔ میڈیا ٹاک شوز میں ایسے ایسے دعوے کیے جاتے ہیں کہ انسان کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہے۔
سچ اگر سچ ہے تو وہ کسی مصلحت کے تحت بھی بولا جائے تو جھوٹ کے مقابلے میں زیادہ وزن رکھتا ہے بشرطیکہ وہ جھوٹ نہ ہو۔ ایسے حالات میں جبکہ حکمران جماعت کے کسی بھی لیڈر میں ضمیر کی آواز پر اپنی حکومت سے اختلافی بات کرنے کی جرأت باقی نہیں رہی یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور صاحب نے اپنی حکومت کے خلاف بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف 6 بلین ڈالر کے عوض پاکستان سے سب کچھ لکھوا لیا گیا ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ چودھری سرور نے جو بات کی ہے وہ حقائق کی کسوٹی پر پورا اترتی ہے مگر یہ سچ انہوں نے مفت میں نہیں بولا اس کے پیچھے ان کی اپنی ایک سیاسی تدبیر ہے اس بیان کی روشنی میں وہ اگلے الیکشن کے لیے اپنے لیے کوئی راستہ تلاش کر رہے ہیں کیونکہ انہیں نظر آرہا ہے کہ اقتدار کی ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگا کر اپنے آپ کو کیسے ریسکیو کرنا ہے اور نئے سیٹ اپ میں اقتدار میں شرکت کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنا ہیں پاور پالیٹکس یہی ہوتی ہے کہ آپ کو ہر قیمت پر حکومت میں آنا ہے چاہے اس کے لیے آپ کو ضمیر اور سوچ کی قربانی دینا پڑے۔ عمران خان کی 22 سالہ سیاسی جدوجہد کا نچوڑ یہ تھا کہ اقتدار حاصل کیے بغیر آپ کا میاب نہیں ہو سکتے اور اقتدار کی خاطر آپ سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں۔
بات چودھری سرور کی ہو رہی تھی وہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے پنجاب کی سب سے پرکشش جگہ گورنر ہاؤس میں براجمان ہیں جو اقتدار اور اختیار کی سب سے پر شکوہ علامت ہے اقتدار کے آخری مرحلے میں وہ فرما رہے ہیں کہ انہیں نمائشی عہدہ دے کر پارٹی سے سائیڈ لائن کر دیا گیا یہ باتیں وہ اتنی تاخیر سے کیوں کر رہے ہیں یہ تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں۔ انہوں نے پچھلی حکومت میں بھی گورنر شپ سے استعفیٰ دے دیا تھا اگر وہ اس حکومت میں فٹ نہیں تھے تو انہوں نے یہ نمائشی عہدہ قبول کیوں کیا یا یہ سوچ بعد میں پیدا ہوئی کہ وہ محض علامتی حکمران ہیں تو انہوں نے چھوڑ کیوں نہیں دیا۔ شاید اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اتنے بچے نہیں ہیں۔ اصل معاملہ کچھ اور ہے وہ سیاست میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔
چودھری سرور کی سیاست سمجھنے کے لیے آپ کو پاکستانی سیاست میں پی ایچ ڈی کرنا پڑے گی۔ پھر بھی ہو سکتا ہے آپ انہیں نہ سمجھ سکیں۔ وہ جس پارٹی میں بھی جاتے ہیں پیرا شوٹ جمپ کے ذریعے پارٹی کی ٹاپ لائن میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ وہ سابق برطانوی رکن پارلیمنٹ ہیں اور برطانیہ اور پاکستان دونوں ملکوں کی سیاست کا مزہ لوٹ چکے ہیں۔ انہوں نے نواز شریف کے جلا وطنی کے دور میں جب وہ جدہ کے سرور پیلس میں قیام پذیر تھے تو یہ چودھری سرور ہی تھے جنہوں نے شریف فیملی کے برطانیہ میں جائیداد یں خریدنے اور برطانیہ میں ان کے قیام میں سہولت
کاری کی تھی جس کے صلے میں انہیں گورنر پنجاب بنایا گیا۔ اس وقت شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے چودھری سرور کی تیز رفتار سیاست کو دیکھ کر شہباز شریف نے پنجاب کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کر دی کہ چودھری سرور کو Entertain نہ کیا جائے۔ شہباز شریف سمجھتے تھے کہ چودھری صاحب ان کے کاموں میں مداخلت کرتے ہیں اور اپنی ذاتی پروجیکشن کے چکر میں ہیں جب چودھری سرور گورنر ہاؤس کی چار دیواری تک محدود ہو گئے تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
مارچ 2018ء میں ن لیگ کی حکومت میں سینیٹ الیکشن ہوئے پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی 30 سیٹیں تھیں چودھری سرور جنرل سیٹ پر امیدوار تھے۔ بظاہر ان کا الیکشن میں کامیاب ہونا ناممکن تھا مگر جب خفیہ ووٹنگ کا رزلٹ آیا تو انہوں نے 44 ووٹ حاصل کر کے سینیٹ سیٹ جیت کر شہباز شریف سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لے لیا۔ ہوا یہ تھا کہ ن لیگ کے 14 لوگوں نے خفیہ ساز باز کر کے چودھری سرور کو اپنے ووٹ فروخت کیے تھے جن کا آج تک سراغ نہیں مل سکا۔
کروڑوں اربوں روپے کی سینیٹ سیٹ جیت کر چودھری سرور نے اس لیے استعفیٰ دے دیا کہ ان کی پارٹی تحریک انصاف 2018ء کا الیکشن جیت چکی تھی اور انہیں ایک دفعہ پھر گورنر بنا دیا گیا۔ چودھری سرور جس پارٹی میں بھی جاتے ہیں وہ اپنی سیاست اور ذاتی تعلقات کو فروغ دیتے ہیں ان کی اہلیہ نے ایک NGO بنا رکھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ انکے اختلافات کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اندرون ملک اور بیرون ملک اہلیہ کی NGO کی فنڈ ریزنگ کے لیے گورنر ہاؤس کو استعمال کرتے تھے جس سے شوکت خانم کے عطیات متاثر ہو رہے تھے یہ گویا وزیراعظم اور گورنر پنجاب کے درمیان براہ راست مفادات کا ٹکراؤ تھا جسے قانون کی زبان میں Conflict of interest کہا جاتا ہے۔
چودھری سرور کے تحریک انصاف چھوڑنے سے سب سے بڑا دھچکا پارٹی کو لاہور میں لگے گا جہاں کی ارائیں برادری میں ان کا گہرا اثر و رسوخ ہے اس کے علاوہ پورے پنجاب میں چودھری سرور نے اپنی برادری کو متحرک اور آرگنائز کر رکھا ہے گزشتہ ساڑھے تین سال میں گورنر ہاؤس میں کسی نہ کسی شکل سب سے زیادہ اجلاس اور میٹنگ ان کی برادری بیس پر ہوئی ہیں۔ وہ ذاتی تعلقات کے ماہر ہیں اور اس عرصے میں انہوں نے اپنی ذاتی Good will پر سب سے زیادہ کام کیا ہے جس کا نتیجہ اگلے الیکشن میں سامنے آجائے گا۔ انہیں پارٹی کے اندر یہ اعتراض ہے کہ انہیں اور شہباز گل کو برابر سمجھا جاتا ہے حالانکہ شہباز گل جیسا بندہ تو بلدیاتی سیٹ بھی نہیں جیت سکتا۔
چودھری سرور بہت ذہین اور شاطر ہیں ان کی مسکراہٹ اور قہقہوں کے پیچھے چھپی سیاست کو سمجھنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں یہ سمجھیں کہ Sky is the limit وہ ن لیگ میں واپس بھی جا سکتے ہیں لیکن اس دفعہ زیادہ چانسز یہ ہیں کہ وہ ق لیگ کے ساتھ جائیں گے اور مزید آگے نہ بھی بڑھ سکے تو تیسری دفعہ گورنر پنجاب بن کر اپنی ہیٹ ٹرک مکمل کریں گے۔ وہ سیاست کے بہت بڑے جادو گر ہیں۔ ان کے بارے میں پیش گوئی کر نا ممکن ن ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے برطانوی سیاست میں پیسے کا استعمال متعارف کرایا تھا جس کے بعد انہیں طویل عدالتی جنگ لڑنا پڑی۔