انسان کی فطرت ہر وقت نظر نہیں آتی اس کا رویہ عام انسانوں جیسا ہی ہوتا ہے۔ اس کی خاص فطرت، خاصیت، خصلت، جبلت، خاص موقعوں پر ابھر کر اس کے خمیر کی نشاندہی کیا کرتی ہے۔ جیسے پینگوئن مچھلی ہر وقت پانی کے اوپر نہیں تیرتی بلکہ کبھی کبھار یکدم نمودار ہوا کرتی ہے۔ یہی اس کی خاص فطرت ہے ورنہ عام مچھلیوں کی طرح تیرا کرتی ہے۔ اگلے روز خواجہ ندیم ریاض سیٹھی ریٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ، ممتاز شاعر جناب حافظ انجم سعید ایڈووکیٹ کی شہرہ آفاق شاعری کا تذکرہ، ایڈووکیٹ طاہر مسعود کی بیٹی کی شادی جس میں ماہر امور مالیات جناب محمد شفیق بٹ، ڈان ڈرگ ایجنسی گوجرانوالہ کے سی ای او جناب ارشد رؤف، ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ جیل اکرم خان، امریکہ سے خصوصی طور پر شرکت کے لیے آئے ہوئے امجد جمیل شیخ و دیگر احباب تھے۔ سیٹھی صاحب کے متفرقات میں تقدیر کے موضوع اور جناب حافظ انجم سعید ایڈووکیٹ کی شاعری کے تذکرے نے محفل کو دو آتشہ کر دیا۔ تقدیر کے تذکرے پر مجھے وہ وقت یاد آ رہا تھا۔
جب دوسری بار میاں نوازشریف وزیر اعظم بنے تو ایک تقریب میں خالد انور ایڈووکیٹ میاں صاحب کے برابر کھڑے تھے۔ درمیان میں ایک میز 40/50 فٹ لمبی لگی تھی، طعام و تناول کا بھی اہتمام تھا۔ میز کے آر پار جانے کے لیے گھوم کر پورا چکر کاٹ کر میز کی دوسری طرف جایا جا سکتا تھا۔ خالد انور میاں صاحب کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے۔ اس موقع پر درجنوں لوگ تھے۔ میاں ثاقب نثار جو اس وقت وہیں تھے، مگر میز کی دوسری جانب یعنی خالد انور کے بالمقابل کھڑے تھے۔ خالد انور نے اس موقع پر میاں صاحب سے ثاقب نثار کے لیے سفارش کی۔ میاں صاحب نے کہا کہ میں نے اس کے لیے کچھ بہتر سوچا ہوا ہے۔ خالد انور معاملہ کو کسی منطقی نتیجہ پر پہنچانا چاہتے تھے۔ انہوں نے میز کی دوسری جانب سامنے کھڑے ثاقب نثار سے کہا کہ ثاقب میں نے میاں صاحب سے آپ کی بات کی ہے تو ثاقب نثار بجائے اس کے کہ شائستگی سے تھوڑا چل کر چکر کاٹ کر میز کے گرد گھوم کر میاں نواز شریف اور خالد انور کے پاس پہنچتے انہوں نے خالد انور کی بات سنتے ہی میز کے نیچے سے بکری کی طرح گزر کر گویا غوطہ زن ہو کر میاں نوازشریف اور خالد انور کے پاس نمودار ہوئے کہ کہیں چکر کاٹ کر میز کے گرد گھوم کر آنے میں وقت لگے اور کسی عہدہ جلیلہ کی گاڑی نہ چھوٹ جائے۔ اخلاقیات، تہذیب اور شائستگی بلکہ ایک معزز وکیل کی شان کے برعکس میز
کے نیچے سے میاں نوازشریف کے پاس پہنچ گئے۔ دراصل میاں نوازشریف بھی لطیفہ باز، لطیفہ پسند، جگت پسند انسان ہیں وہ اس لطیفہ نما حرکت سے محظوظ ہوئے ہوں گے اور موصوف کو خالد انور کی سفارش اور ان کے سابقہ تعلقات کی بنا پر نواز دیا۔ دراصل قدرت کا انتظام کچھ اور ہوتا ہے، میاں صاحب اپنے انجام کا بندوبست کر رہے تھے۔
غریب، امیر، معروف، بدنام کے گھر ایک عام معاشرے، خاندان کے ماحول میں پیدا ہونا بھی تقدیر ہی ہے۔ دراصل تقدیر وہ ہے جس سے انسان بے خبر ہو، جیسا کہ قرآن عظیم میں ہے کہ کوئی نہیں جانتا کل کیا ہو گا۔ پھر دوسری جگہ ارشاد ہوا، کوئی نہیں جانتا اگلے لمحے کیا نفع یا نقصان اٹھانے والا ہے(مفہوم)۔ میرا اللہ فرماتا ہے کہ ایک چال انسان چلتا ہے اور ایک اللہ کی چال ہے اور یقیناً اللہ کی چال بہتر ہے (مفہوم)۔ میاں نوازشریف کی چال اپنے تئیں مثبت ہو گی کہ اپنے گروپ کا بندہ اور پھر جب ثاقب نثار میز کے نیچے سے آئے تو اس حرکت پر بہت خوش ہوئے ہوں گے کہ یہ توقع سے زیادہ تابع دار ہو گا مگر میاں صاحب نے زیادہ نہیں تو وارث شاہ کے افکار، بھلے شاہ کا تدبر، میاں محمد بخش کی دانش کا ہی سنا ہوتا تو کبھی ان لوگوں کو قریب نہ آنے دیتے جس کے ساتھ اور سنگم میں انہوں نے حکومت کی اور پھر مشکلات سے دوچار ہوئے۔ گریٹ بھٹو صاحب کے خلاف تو بین الاقوامی اور اندرون ملک سازشیں ہوئیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا معاملہ اور مسئلہ بھی اپنے عظیم باپ سے مختلف نہ تھا۔ بین الاقوامی اور ملکی سازش کا شکار ہوئیں مگر میاں نوازشریف اپنے تئیں بی بی شہید کے خلاف ہر شعبہ اور ادارہ میں صف بندی کرتے رہے جو ان کے خلاف ہی ثابت ہوئی۔ بی بی صاحبہ کے بعد میاں صاحب کے لیے مشکل وقت تھا کیونکہ جس قدر آور شخصیت کی مخالفت کر کے وہ مسلمہ طور پر پیپلز پارٹی مخالف لیڈر کے طور پر اپنا آپ منوا چکے تھے۔ اب مد مقابل کون ہو گا؟ لانے والے ایسے شخص کو لے آئے جس کی زبان سے کوئی محفوظ نہ تھا لہٰذا میاں صاحب نے شیخ رشید جسے گوہر بٹ ”پاٹا ٹہول“ پھٹا ہوا ڈھول کہتے ہیں نے جو دشنام طرازی بی بی صاحبہ کے خلاف کی جو جو ہوا وہ میاں صاحب اور ان کے خاندان کے خلاف پی ٹی آئی ان کے میڈیا پرسنز نے کورس کی صورت میں کیا۔ پھر تقدیر کا سفر آگے بڑھتا ہے تاریخ کے بہترین جرنیل قرار پانے والے جناب جنرل قمر جاوید باجوہ اب عمران خان کے لیے تاریخ میں کیا مقام رکھتے ہیں، نیا فتویٰ آنے تک، فتویٰ محفوظ ہے۔ اگر کوشش، خلوص، مال و دولت کی قربانی ہی سب کچھ ہوتی، تدبر ہی سب کچھ ہوتا تو علیم الدین خان وزیر اعلیٰ پنجاب ہوتے اور بزدار بساط پر بھی نہ ہوتے۔
اب EVM مشینیں اور بیرون ممالک حالات سے ناواقف پاکستانی ہی عمران خان کا سہارا رہ گئے ہیں۔ اگر آرڈیننس اور کابینہ کے فیصلوں کے ذریعے ہی قانون سازی کرنی ہے تو ایک ہی حکم جاری کریں۔ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے علاوہ تمام جماعتیں کالعدم قرار دے دے۔ صرف بلے کے نشان کے بیلٹ پیپر چھپوائے تو فنڈز جاری ہوں گے۔ اور تمام اداروں بشمول عدلیہ کے فنڈز بھی حکومتی حمایت کے ساتھ مشروط کر دیئے جائیں، آسانی رہے گی۔
میں نے دو دہائیوں سے زیادہ ایئر پورٹ پر دوران حکومتی غلامی لوگوں کو بیرون ملک اندرون ملک آتے جاتے دیکھا۔ پہلے آنے والے آنکھوں میں چاہت، حسرت، محبت، اداسی کی خواہش لیے آتے تھے۔ آج اپنے بیٹے امیر حمزہ آصف سینئر ڈائریکٹر ڈسکور پاکستان کو جو دو ہفتوں کے لیے امریکہ گیا تھا وہ واپس آیا، لینے گیا تو بیرون ممالک پاکستانیوں کی رعونت اور اکڑ دیکھ کر احساس ہوا کہ وہ پاکستان نہیں ایتھوپیا آ رہے ہیں۔ ان کا کروفر گھر والوں کے لیے ایسے ہی تھا جیسا آئی ایم ایف کا پاکستان سے ہے۔ یہ سب موجودہ وزیراعظم کی تقاریر اور پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
دراصل جب تک ہم ملک میں قانون کی حکمرانی اور پارلیمانی حکمرانی، سول سپرامیسی کو رائج کرنے کے بجائے اپنے مفاد میں اپنے کاتب تقدیر خود بنتے ہیں تو پھر قدرت کی اپنی چال حرکت میں آتی ہے جو انسان کی چال سے زیادہ بہتر اور کامیاب ہوا کرتی ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک یہی ہوا گریٹ بھٹو نے تابع فرمان دیکھا، وہ قاتل نکلا۔ آپ کوئی بھی عہدہ، کوئی بھی تعیناتی جو صوابدیدی ہی کیوں نہ ہو، میرٹ کے برعکس پلاننگ کے ساتھ کی گئی ہو، کسی بھی ادارے سے تعلق رکھتی ہو دیکھ لیں، وہ تدبیر خود کاتب تقدیر ہونے کی ناکام کوشش نکلی اور تدبیر موت نہیں تو تباہی کا سبب بنتی رہی اگر آج ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو جائے تو تدبیر ہلاکتوں میں نہ بدلیں اور تجزیہ کار بھی گونگے ہو جائیں کیوں کہ پھر تجزیہ نہیں آئین بولتا ہے لہٰذا اپنے کاتب تقدیر نہ بنیں اور مرتب شدہ آئین پر عمل کریں۔ ورنہ تدبیر تو بعض اوقات ہلاکت کا باعث بن جایا کرتی ہے۔