پروفیسر مرغوب صدیقی، کم گو مگر زودو بسیار نویس

Safdar Hamdani, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

مرحوم پروفیسر مرغوب صدیقی جیسے سروقد صحافی اور استاد کے بارے میں مجھ جیسے طالب علم کا کچھ لکھنا بلاشبہ اعزاز  ہے اور میں ذاتی طور پر ان کے فرزندارحمند فرخ مر غوب صدیقی کا شکر گزار ہوں،جنہوں نے مجھے یہ عزت دی کہ میں ان کے نابغہ روزگار والد کے حوالے سے کچھ لکھوں، سچ تو یہ ہے کہ اس مفاد پرست معاشرے میں مرغوب صدیقی صاحب جیسے لوگ انگلیوں پر گنے ہوئے ہیں جنہوں نے سو فیصد صحافت کو عبادت سمجھا جبکہ آج صحافت سو فیصد تجارت ہے۔
میں نے اکہتر بہترمیں جب جا معہ پنجاب کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا تو اسوقت ڈاکٹر عبدالسلام خورشید صدر شعبہ تھے اور مقبول اساتذہ میں پروفیسر وارث میر، مسکین حجازی، پروفیسر مہدی حسن اور پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری تھے اور ان میں سے ہر ایک استاد سے دو با لشت زیادہ دراز قد تھا۔ہم سے پہلے شعبہ صحافت پر دائیں بازو کا راج تھا یہ پہلا سال تھا کہ شعبہ صحافت میں بائیں بازو کے طلبا کی بڑی تعداد تھی جنہوں نے جامعہ کے انتخابات میں کا میابی بھی حاصل کی۔
پروفیسر مرغوب صدیقی ہمارے شعبہ صحافت آنے سے پہلے جا چکے تھے لیکن اساتذہ سے انکی اورڈاکٹر عبدالسلام خورشیدکی چپقلش  بارے میں بہت سنا تھا جوظاہر ہے یہاں میرا موضوع نہیں لیکن اکثریت کی رائے یہی رہی کہ مرغوب صدیقی صاحب اپنے مؤقف پر ڈٹ جانے والے انسان تھے چاہے جتنا بھی نقصان کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ہم لوگ مرغوب صاحب کے نام سے بخوبی آگاہ تھے، لیکن ان سے شرف ملاقات کبھی نہ ملا۔
قدرت نے یہ شرف بھی بخشا اور خوب خوب بخشا کہ ان سے ملاقات نہیں ملاقاتیں ہوئیں انکی محبت ملی ان سے بہت کچھ سُنا بہت کچھ سیکھا،وہ میرے والد مرحوم مصطفی علی ہمدانی کے دوستوں میں سے تھے اور انکی زبان بیان کے علاوہ صحافت اور نشریات کی بے حد تعریف کرتے تھے۔
یہ بات ستر کے عشرے کے اوائل کی ہے جب ذوالفقار علی بھٹونے بلوچستان کی حکومت کو بر طرف کیاتو مری اور مینگل قبائل کے لشکر پہاڑوں پر چڑھ گئے۔مجھے اسوقت تاریخ کے اس حصے کو منکشف نہیں کرنابلکہ اپنے موضوع پر رہتے ہوپروفیسر مرغوب صاحب کے ذکرپر توجہ مرکوز رکھنی ہے۔اسوقت لاہور ریڈیو کے سربراہ چوہدری بشیر مرحوم تھے جنہوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلاکر پوچھا کہ کیا تم پروفیسر مرغوب صدیقی کو جانتے ہو؟میں نے کہا کہ نام تو بہت سُنا ہے لیکن ملاقات اب تک نہیں ہو سکی،وہ مسکرائے اور کہنے لگے کہ چلو اب ملاقات بھی ہو جائے گی۔اسکے بعد انہوں نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے خود پروفیسر مرغوب صدیقی کا نام بلوچستان کی صورتحال  کے حوالے سے تقاریر کی ایک سیریز کے لیے دیا ہے اور اسکے ساتھ ہی وفاقی سیکرٹری اطلاعات نے کچھ ضروری باتوں کا خیال رکھنے کا بھی کہا ہے۔
دفتر کی گاڑی مرغوب صاحب کو گھر سے لائے لے جائے گی۔ میں بحیثیت پروڈیوسر انکی تقاریر کا ذمہ دار ہوں گا اور انکی آمد پر باہر نکل کے انکا استقبال کروں گا، انکی تقاریر کی ویٹنگ یعنی تدوین نہیں ہوگی جو وہ لکھ کے لائیں گے اسی طرح ریکارڈ ہو گااسی طرح کی کچھ اور ہدایات بھی تھی۔
 مرغوب صاحب کو مطلع کر دیا گیا تھا کہ صفدر ہمدانی انکی تقاریر کوریکارڈ کرنے اور نشر کرنے کے ذمہ دار ہونگے اور انکو تمام ہدایات دی جا چکی ہیں۔یہ تیرہ تقاریر کی سیریز تھی،میں نے مرغوب صاحب کو فون کر کے اپنا تعارف کرایااور گاڑی بھیجنے کے بارے میں ہدایات سے آگاہ کیا،دفتر میں انکے لئے وی آئی پی سٹوڈیو تیار کرایا اور اگلے روز دوپہر میں انکی آمد کا منتظراور انکے استقبال کے لئے لاہور ریڈیو کے صدر دروازے پر بنفس نفیس موجود تھا۔
باہر سکیورٹی کو ہدایات دی جا چکی تھی کہ گاڑی پورچ تک آئے گی۔مرغوب صاحب تشریف لائے میں نے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا تو انہوں نے نکلتے ہی مجھے گلے سے لگایا اور کہنے لگے تمہارے والد میرے بہت اچھے دوستوں میں سے ہیں۔ میں انکو لے کر چودھری بشیر صاحب کے کمرے میں گیا جہاں پروگرام منیجر اکرم بٹ اور چودھری اسلم بھی موجود تھے،یہاں انکے لئے مختصرچائے کا انتظام تھا جسکے بعد میں انکو ریکارڈنگ کے لئے سٹوڈیو گیا،لگ بھگ چھ سات منٹ کی تقریر اتنے وقت میں ریکارڈہوئی اور کوئی قطع برید نہیں کرنا پڑی جو ایک اچھے براڈ کا سٹر کی نشانی ہے۔
ریکارڈنگ کے بعد جب وہ واپس جانے لگے تو گاڑی میں بیٹھنے سے قبل کمال محبت سے مجھے کہنے لگے بیٹا ریسیو کرنے کے لئے باہر نکل کر کھڑے ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وزارت اطلاعات کی ہدایات اپنی جگہ،لیکن مجھے ایسا پروٹوکول پسند نہیں۔اس روز انکا لباس مجھے آج بھی یاد ہے کالے فریم کی عینک، کالی ڈبیوں والا ڈھیلا ڈھالا کوٹ اور ہلکے براؤن رنگ کی ڈھیلی ڈھالی پینٹ۔
انکی اگلی تمام تقاریر انکی منشا کے مطابق ریکارڈ اور نشرہوئیں اور ان تمام تقاریر میں ایک مرتبہ بھی ایڈیٹنگ نہیں کرنا پڑی۔
یہاں ایک اور واقعہ بتانا چاہوں گا، تیسری یا چوتھی مرتبہ جب وہ تشریف لائے تو ایک کم عمر بچہ بھی ہمراہ تھا جسکی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی ہوئی تھی۔ کہنے لگے صفدر بیٹا یہ میرا بیٹا صہیب مرغوب ہے میں اسے تم سے ملوانے لایا ہوں۔میں نے جوان سے ہاتھ ملایا تو ٹھنڈے ہاتھ۔دبلا پتلا یہ صہیب ہما رے ساتھ سٹوڈیو ہی آگیا۔جب ریکارڈنگ ختم ہوئی تو مر غوب صدیقی صاحب کمال مہربانی سے کہنے لگے  صفدر  بیٹا اسے تمہارے حوالے کر رہا ہوں تم اسے ریڈیو میں کسی پروگرام میں شامل کرو۔میں نے کسی تر دو کے بغیر حامی بھر لی اور فیصلہ کیا کہ صہیب مرغوب بچوں کے لئے کہانیاں لکھا کریں گے۔ اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ دو تین مرتبہ مجھے صہیب سے ایک ایک کہانی تین تین چار مرتبہ بھی لکھوانا پڑی اور صابر بچے نے کبھی اُف نہ کی،صہیب کہانی گھر سے لکھ کر آتے، میرے کمرے میں بیٹھتے اور جتنی بار جیسی جیسی میں کہتا تبدیلی کرتے، جب اسکی پہلی کہانی نشر ہوئی تو اسکی خوشی دیدنی تھی۔عرصے بعد مجھے معلوم ہوا کہ صہیب وہی صہیب مرغوب ہے جو آج کا معروف صحافی ہے
مرغوب صدیقی صاحب کم گو آدمی تھے اور کم الفاظ میں جامع بات کر لیتے تھے یہی انداز انکی تحریر میں بھی تھا۔    اب ایسے صحافی کہاں ………… 
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے