عمران خان کی حکومت کو درپیش مسائل

Mamoona Hussain, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

ایک طرف پی ڈی ایم سے پی پی پی کے اتحاد کی باتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف این اے 133کی الیکشن کمپین میں ن لیگ اور پی پی پی ایک دوسرے لئے روایتی زبان استعمال کر رہے ہیں جو وہ ہمیشہ سے ایک دوسرے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ وہ ایک دوسرے کی ویڈیو بھی لیک کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کا کافی چرچہ ہے۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی ایکشن لے لیا اور فوری کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے اُمیدوار میاں بیوی  جو بہت عقل مند تھے پہلے ہی اس انتخاب سے پہلے ہی آؤٹ ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی یہ ن لیگ کا حلقہ تھا اور ہے پی ٹی آئی نے عقل مندی سے اس الیکشن سے راہ فرار اختیار کی۔
اب پیچھے ایک سال رہ گیا ہے اور پی ٹی آئی کے اندر گروپ بندی بھی اپنے عروج پر جا رہی ہے۔ چودھری سرور گروپ جو اپنی برادری کے علاوہ کسی دوسری برادری کو پسند نہیں کرتا اب وہ بھی اس حکومت سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی نے ان کو سائیڈ پر کر دیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی برادری کے ہر بندے کو اس حکومت میں فٹ کیا ہے۔ اسی گونرر شپ میں انہوں نے اپنی برادری کے لوگوں کو پارٹی میں عہدے بھی دئیے اور محکمے بھی۔دوسری طرف جہانگیر ترین گروپ ہے جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور جونہی اس حکومت کا خاتمہ ہونا ہے تمام گروپس سامنے آنا شروع ہو جائیں گے جن کو عمران خان ہینڈل نہیں کر پائیں گے کیونکہ جس طرح وہ آٹا چور، چینی چور اور ادویات چوروں کے خلاف کارروائی نہ کر 
سکے وہاں پر بھی یہ بے بس ہو جائیں گے؟
اگر ہم سیاسی لحاظ سے اس حکومت کو عالمی سطح پر دیکھتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے سکتے ہیں کہ حکومت کے پہلے سال میں سعودی اور عرب امارات سے3،3 ارب ڈالرزکے ڈیپازٹ آئے۔آئی ایم ایف کے قرضوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اُس وقت کی وجوہات کی تو سمجھ آگئی۔ مگر آپ کی حکومت کے چوتھے سال میں بھی سعودی عرب سے 3ارب ڈالر کی بھیک اور پھر آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے۔وزیر اعظم عمران خان صاحب آپ تو بھیک کا کشکول توڑنے آئے تھے۔مگر افسوس آپ نے تو کشکول پاکستان کے ہر باسی کو تھما دیا۔
عمران خان صاحب ہم اس ساری صورتحال کو آپ کی ٹیم کی نالائقی سمجھیں جو معاشی بدحالی کا سبب بن رہی ہے۔ میرے خیال سے آپ کی خارجہ پالیسی ہی بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ آج مغربی دُنیا نے پاکستان کو رسمی تعلقات اور افغانستان ہمسائے کی حد تک محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ یورپی ممالک کی پاکستان میں دلچسپی کم پڑ چکی ہے۔
امریکہ سے پاکستان کے تعلقات زمین بوس ہوتے جا رہے ہیں ایک سال سے ہمارے ملکی قیادت کی ملاقاتیں اُنگلیوں پہ گنی جا سکتی ہیں۔عمران خان صاحب اگر برا نہ لگے تو ماضی میں آپ کے امریکہ کے لیے دئیے گئے میڈیا بیانات نے جلتی پہ تیل کا کام کیا ہے۔نازک سکیورٹی،اور سفارتی معاملات پر میڈیا انٹر ویوز میں امریکہ کو لتاڑنے کی وجہ سے جوبائیڈن انتظامیہ مزید ناراض ہو گئی ہے۔جس کی قیمت پوری قوم چُکا رہی ہے۔ آئی ایم ایف مذاکراتی شرائط سامنے آئیں ہماری مذاکراتی ٹیم کی ایڑیاں رگڑوا دی گئی،اس سے پہلے 99%شرائط ماننے کے باوجود ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے سے انکار کر دیا۔اقوام متحدہ ہو یا انٹرنیشنل میڈیا سب پاکستان پر تنقیدی نظر رکھے ہوئے ہیں،اس میں سب ْقصور پاکستان کا نہیں امریکہ نے بھی پاکستان کے بہت زیادتیاں کی ہیں۔ مگر سوچنا یہ کہ مسئلے کا حل کیا ہے خاموش سفارتکاری یا مفادات کے حصول کی کاوش، پاکستان امریکہ سے پنجہ آزمائی نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی پنجہ آزمائی کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان آج بھی امریکہ کی مدد سے چل رہا ہے،حال ہی میں امریکہ نے پاکستان کو ڈھائی کروڑ ویکسین دیں،یو ایس ایڈ سے پاکستان میں بے شمار سکول چل رہے ہیں،پینے کے صاف پانی کے منصوبے موجود ہیں امریکی امداد کی بدولت ہمارے طلبا غیر ملکی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔اس لئے پاکستان کو امریکہ سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرنے چاہئیں۔ 
اب پی ٹی آئی کو اگلا الیکشن جیتنے کیلئے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ اب یہ ناممکن سا دکھائی دے رہا ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم پاکستان کو اس معاشی بحران سے باہر نکال سکے گی۔ کیونکہ عوام مہنگائی کی چکی میں پستے جا رہے ہیں اس سال مہنگائی 23%تک پہنچ چکی ہے اور عوام اس حکومت سے بہت تنگ آچکی ہے اس لئے اگلا الیکشن پی ٹی آئی کے لئے حکومت میں آنا ناممکن ہو جائے جس کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم یف کی شرائط کا ماننا ہے۔جب تک یہ قرض لیتے رہیں گے ان کی شرائط اسی طرح سخت ہوتی جائیں گے اور اس کی سزا عوام کو ملے گی اور پھر عوام آپ کو کسی صورت ووٹ نہیں دیں گے۔