اسلام آباد: سپریم کورٹ کراچی جسٹری میں شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کے معاملے کی سماعت ہوئی جس کے دوران چیف جسٹس نے حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کو پرسوں اور سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کو کل طلب کر لیا۔ عدالت نے وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ کل مصطفی کمال پیش ہو کر بتائیں کہ محمود آباد میں ٹریٹمنٹ پلانٹ کی 50 ایکڑ زمین غیر قانونی طور پر کیسے الاٹ کی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ شہریوں کو صاف پانی اور ماحول فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور حکومت اپنی ذمہ داری ادا نہ کرے تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے کیونکہ جمہوری نظام میں عدلیہ کو نگراں کی حیثیت حاصل ہے اور ریاست کا کوئی ستون کام نہ کرے تو ہم اس سے پوچھیں گے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم بغض رکھنے والے نہیں ہم میرٹ پر فیصلہ دیتے ہیں کسی کو اچھا لگے یا برا فیصلہ دے دیا تو یہ کہتے رہیں کہ میرے خلاف فیصلہ کیوں دیا؟ ضرورت پڑی تو وزیر اعلی کو بلا کر یہاں واٹر کمیشن کی ویڈیو دکھائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اچھا کام ہوگا تو تعریف بھی کریں گے بڑے لوگ تو امپورٹ کر کے پیتے ہیں گندا پانی غریبوں کیلئے ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ واٹر کمیشن کی ویڈیو اسپیکر سندھ اسمبلی کو بھجوائی گئی تھی مگر اسمبلی میں نہیں دکھائی گئی اگر اختیار کی بات ہے تو اس تنازعے میں نہ پڑیں ہم جانتے ہیں کہ ہم کیا حکم دے سکتے ہیں ہمیں معلوم ہے کہ ہمارا کیا اختیار ہے ہم پیمرا کو ویڈیو بھیجیں گے تاکہ تمام چینلز پر نشر کی جائے اور ہم پوچھیں گے کہ کتنا پیسہ کہاں سے آیا اور کہاں گیا؟۔ ہم کسی سرکاری افسر سے نہیں بلکہ سندھ اور پنجاب کے وزیراعلیٰ سے پوچھیں گے کیونکہ پنجاب میں بھی بُرا حال ہے اور نہروں میں زہریلا پانی شامل ہو رہا ہے۔
درخواست گزار شہاب اوستو نے کہا کہ واٹر کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں 77 فیصد پانی قابل استعمال نہیں اور کراچی میں 80 فیصد پانی میں انسانی فضلہ شامل ہے اور 91 فیصد شہریوں کو صاف پانی میسر نہیں۔ شہر کے چاروں فلٹر پلانٹس غیر فعال ہیں۔ مصطفی کمال نے دور نظامت میں محمود آباد میں ٹریٹمنٹ پلانٹ کی 50 ایکڑ زمین غیر قانونی طور پر الاٹ کی گئی۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں