”ساون آئے، ساون جائے“، اخلاق احمد نے جوگانا گایا کمال گایا

”ساون آئے، ساون جائے“، اخلاق احمد نے جوگانا گایا کمال گایا

لاہور:”ساون آئے، ساون جائے“ ،”سونا نہ چاندی نہ کوئی محل" ، یہ وہ  مقبول ترین گانے ہیں جن کو    اخلاق احمد کی آواز نے امر کردیا۔اخلاق احمد کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے اور آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ 

موسیقار روبن گھوش نے 1974 میں اخلاق احمد کی آواز میں اپنی فلم ”چاہت“ کا ایک نغمہ ”ساون آئے، ساون جائے“ ریکارڈ کروایا، جو ان کے فلمی سفر کا مقبول ترین نغمہ ثابت ہوا۔انہوں نے جو بھی گانا گایا کمال گایا۔
اخلاق احمد 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ سٹیج پروگراموں میں شوقیہ گلوکاری کرنے لگے۔ 1971ء میں انہوں نے کراچی میں بننے والی فلم ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ کے لیے ایک گانا ریکارڈ کروایا تھا اور یہیں سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ اور ’’پازیب‘‘ میں بھی اخلاق احمد کے گیت شامل ہوئے، لیکن ان کے ذریعے وہ مقبولیت انھیں نہیں ملی جو بعد میں ان کے حصےمیں آئی۔ 

انہوں نے شوبز کی دنیا میں اس وقت قدم رکھا جب گلوکاروں کا فلمی دنیا میں جگہ بنانا نہایت مشکل تھا، اخلاق احمد نے اپنی سریلی آواز اور انتھک محنت سے ایک الگ مقام حاصل کیا، فلم ’’بندش‘‘ کے گیت نے اخلاق احمد کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

اخلاق احمد نے مہدی حسن، مسعود رانا، احمد رشدی جیسے بڑے گلوکار وں کی موجودگی میں خود کو منوایا، انہوں نے امنگ، زبیدہ، انسان اور فرشتہ، انسانیت اور مسافر سمیت متعدد کامیاب ترین فلموں کے لیے سپرہٹ گیت گائے جو بہت پسند کیے گئے۔گلوکار اخلاق احمد نے بطور پلے بیک سنگر پاکستانی فلم انڈسٹری کیلئے کام کیا اور کیریئر کے دوران 86 فلموں کیلئے 177 نغمے گائے، ان کی آواز میں گایا گیا آخری گیت فلم’’ نکاح‘‘ میں شامل کیا گیا، اخلاق احمد کے گیت آج بھی لوگوں میں بے حد مقبول ہیں، انہیں سات بار نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔


انہوں نے شرافت، دو ساتھی، پہچان، دلربا، امنگ، زبیدہ، انسان اور فرشتہ، انسانیت، مسافر، دوریاں، بسیرا جیسی کامیاب ترین فلموں کے لیے گیت گائے جو بہت پسند کیے گئے۔ اخلاق احمد کا شمار پاکستان میں مقبولیت کے اعتبار سے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں ہوتا ہے۔

اخلاق احمد نے آٹھ نگار ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔ 1985ء میں انھیں خون کا سرطان تشخیص ہوا تھا ۔ 4 اگست 1999 کو کینسر کے موذی مرض کے باعث اپنے وقت کے عظیم گلوکار دنیا سے رخصت ہوگئے ۔وہ اپنی مسحور کن آواز کی بدولت وہ آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

مصنف کے بارے میں