عمران خان بلا شبہ اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں،آنے والے مہینوں میں کسی وقت بھی الیکشن ہوں تو لگتا ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت لے جائیں گے،وہ بلا شرکت غیرے اپوزیشن لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا جیسے بڑے صوبوں کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حکمران بھی ہیں۔پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد انہیں مزید طاقت ملی ہے مگر انہیں اپنی حکومت والے صوبوں میں گورننس،ترقی اور سیاسی رابطوں پر توجہ دینا ہوگی،انہیں ملک میں محاذ آرائی کو بھی کم کرنا ہو گا۔
حکومتوں کی ناکامی اور کامیابی میں گورننس کا بہت زیادہ کردار ہوتا ہے،حکمرانوں کی طرف سے منتخب بیوروکریسی ، کلیدی عہدوں کے لئے افسروں کا انتخاب اور اور پھر ان کلیدی افسروں کے مشورے سے صوبائی سطح پر افسروں کی تعیناتیاں حکومت کی گورننس کو گڈ گورننس یا بیڈ گورننس بناتی ہیں۔وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا اپنی انتظامی ٹیم پر اعتماداور ان کے ساتھ رویہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ،بیوروکریسی اور ریاستی مشینری متعلقہ حکومت کی انتظامی فورس کا درجہ رکھتی ہے۔رہنما او ر کارکن ہرسیاسی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں مگر کچھ سرکاری فرائض ایسے ہوتے ہیں جو ہمارا اور ان کا کی تخصیص کیے بغیر انجام دئیے جائیں تو ہی بہتر ہوتا ہے،ہر ریاستی کام کو سیاسی رنگ دینے سے معاملات عمومی طور پر خراب ہوتے ہیں ،بھٹو دور ہمارے سامنے اس کی ایک مثال ہے جنہوں نے عوام ہماری طاقت ہیں کا نعرہ لگایا اور عوام کو غیر علانیہ طاقت دے دی بلکہ عوام نے از خود اختیار کے تحت حاصل کر لی اور نتیجے میں کوئی سرکاری کام انجام دینا ممکن نہ رہا کہ پیپلز پارٹی کے کارکن ہر کام میں مداخلت کرتے تھے،نتیجے میں سرکاری مشینری اور بیورو کریسی مجبوربن کر رہ گئی،عمران خان بلا شبہ ایک طلسماتی شخصیت کے مالک ہیں،کارکنوں پر ان کا سحر اب بھی طاری ہے،آج بھی وہ مجمع اکٹھا کرنے کے ہنر سے آگاہ ہیں، ان کے موجودہ جلسے اس کے گواہ ہیں ، مگر پارٹی اور حکومت کے معاملات کو ایک ہی انداز سے نہیں چلایا جا سکتا،جس طرح عوامی رابطہ مہم اور جلسے جلوس ،انتخابات کیلئے اہم ہوتے ہیں لیڈر اور عوام میں پل کا کردار ادا کرتے ہیں اسی طرح بیوروکریسی سرکاری مشینری جس نے حکومتی فیصلوں،پالیسیوں کو عملی شکل دینا ہوتی ہے وہ بھی حکومتی لیڈر اور اداروں کے درمیان رابطہ کاری کے علاوہ ڈیلیور کرنے کی منظم فورس ہے ،حکومتی معاملات میں جس رازداری کی ضرورت ہوتی ہے اس کی بھی امین بیوروکریسی ہوتی ہے مگر تحریک انصاف کی قیادت یہ نہ سمجھ سکی ،ہم کوئی غلام ہیں کا نعرہ لگانے والوں کو اپنی پارٹی اور بیوروکریسی کو بھی غلام بنانے کے چکر سے نکلنا ہو گا ۔مختلف حکمرانوں سے نبھاہ کرنے والی،ان کے ساتھ کام کرنے والی بیوروکریسی اتنی تو تجربہ کار ہو جاتی ہے کہ وہ صورتحال کے تناظر میں اپنے لئے راہ نکالے مگر تحریک انصاف حکومت نے افسروں کو اکثر معاملات میں راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ نا اہل ترین حکومت کے ساتھ اچھی بیوروکریسی کی طاقت ہو تو وہ کامیاب ہو جاتی ہے ،تحریک انصاف کی وفاقی حکومت تو نہ رہی مگر اب بھی پنجاب کے ذریعے اچھا پیغام دیا جا سکتا ہے۔ غنیمت ہے بیوروکریسی میں متعدد تعلیم یافتہ اور تجربہ کار افراد موجود ہیں اگر بیوروکریسی کے تجربے سے فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اگلے الیکشن میں کام کا بھی نام ہوگا۔پنجاب حکومت اب سابق اور حاضر سروس افسروں کی ٹیم کو بروئے کار لاکر موجودہ صورتحال سے عہدہ برا ہو سکتی ہے ،یادش بخیر اسی طرح وفاق میں حکومت کے وقت بڑی آسانی سے مخالفین کو ناکام بنا یا جا سکتا تھا،مگر معاملات کی خرابی کے باوجود سابق وفاقی حکومت کو اس کا احساس ہے نہ اس صورتحال سے بچ نکلنے کی خواہش ہے۔
بیوروکریسی کی پسند ناپسند ،ان کے لئے اچھی حکومت ، کا سرسری جائزہ لیا جائے تو موجودہ سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں میں سب سے زیادہ ہر دلعزیز وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی دکھائی دیتے ہیں،اگرچہ چند ماہ قبل انہوں نے بھی سپیکر پنجاب اسمبلی کے طور پر ایسی قانون سازی کی جس کے ذریعے سرکاری افسروں کو ارکان اسمبلی کا ماتحت بنانے کی کوشش کی گئی مگر بعد ازاں یہ معاملہ حل کر لیا گیا۔ ق لیگ اگر چہ مشرف کے دور میں برسر اقتدار رہی مگر آج سالوں گزرنے پر بھی پرویز الٰہی کے پہلے دور کی یادیں عوام،عوامی نمائندوں اور سرکاری افسروں کے دل و دماغ میں پائی جاتی ہیں،بیورو کریسی کیلئے سب سے زیادہ قابل قبول اب بھی چودھری پرویز الٰہی ہیں،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے دور میں بیوروکریسی کو نہ صرف احترام اعزاز انعام سے نوازا بلکہ ان کے ساتھ رویہ بھی ذاتی ملازم جیسا نہیں رکھا ، ان کو ریاستی نمائندہ کے طور پر ہی ٹریٹ کیا،جس کا نتیجہ ہے کہ آج بھی چودھری پرویز الٰہی بیوروکریسی میں پسندیدہ ہیں، ان کے دور میں بیوروکریسی کو جو مقام و مرتبہ اور عزت ملی اس کے جواب میں بیوروکریسی نے ڈیلیور بھی کیا اور پنجاب میں مثالی گورننس اور ترقی رہی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا پنجاب میں دور اگر چہ بیوروکریسی کیلئے ایک آزمائش ہی رہا ،وہ تمام محکموں کے سیکرٹری صاحبان کو صبح سے لے کر رات تک انگیج رکھتے،سارا دن ان کو اپنے دفتر کے باہر بٹھائے رکھتے اور رات کو گھر بلا لیتے،گھنٹوں انتظار کرانے کے بعد صبح پھر آفس میںطلبی کے پروانے کیساتھ رخصت ملتی، ان کے پہلے دور میں اکثر افسروں کی بے عزتی بھی کی جاتی مگر جن افسروں پر شریف برادران اعتماد کرتے ان کو عزت و توقیر سے نوازا جاتا،اعزاز کیساتھ انعام بھی دیا جاتا۔ان کے دور میں بھی بہت ذہین اور محنتی افسران بھی تھے جن میں فواد حسن فواد ،احد خان چیمہ قبیل کے افسر بھی شامل تھے ، اب بھی ایک اچھے افسر ڈاکٹر توقیر وزیر اعظم کے ساتھ ہیں ، نبیل اعوان گورنر پنجاب کے ساتھ ہیں،احد چیمہ تو اب وفاقی وزیر کے سٹیٹس والے مشیر کی حیثیت سے وزیر اعظم کے ساتھ ہیں، پنجاب میں میاں شہباز شریف کے دور میں بے شمار چیف سیکرٹری رہے،جن میں جاوید محمود بیڈ گورننس اور ناصر محمود کھوسہ گڈ گورننس کا سمبل تھے۔
پیپلز پارٹی پنجاب میں بہت ہی محدود اقتدار میں رہی وہ بیوروکریسی کی کم پسندیدہ ہے۔ تحریک انصاف نے کم و بیش چار سال کا عرصہ مرکز اور پنجاب کے اقتدار میں گزارا مگر اس نے کسی افسر کو خوش کیا نہ کسی کو احترام دیا عمران خان اب پنجاب میں ان تمام سیاسی لوگوں اور افسروں کو سبق سکھانا چاہتے ہیں جنہوں نے حمزہ شہباز کے مختصر دور میں پی ٹی آئی کے لوگوں کے ساتھ زیادتیاں کیں ،پنجاب میں جن پولیس اور سول افسروں نے حمزہ شہباز کے مختصر دور میں زیادہ جذباتی انداز میں کام کیا ان میں سے بہت ساروں نے تو خود ہی مرکز میں پناہ لے لی ہے جبکہ باقی آہستہ آہستہ راستے بھی ڈھونڈ رہے ہیں اور معافیاں بھی مانگ رہے ہیں ،میں نے پچھلے کالم میں انہی فنکار افسروں کا ذکر کیا تھا۔