تقدس رمضان کے تقاضے

08:56 AM, 4 Apr, 2022

نیوویب ڈیسک

رمضان المبارک کے ماہ مقدس کا آغاز ہو چکا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کی برکتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ یہ وہ با برکت مہینہ ہے جس میں قرآن پاک نازل ہوا تھا۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں اس مہینے کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :  اے ایمان والو!  تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے۔ تاکہ تم پرہیز گار بن سکو۔ بہت سی احادیث مبارکہ میں بھی اس ماہ مبارک کے فضائل و برکات کا بیان آتا ہے۔ نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت ، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ روزہ ایک ڈھال ہے۔ فرمان نبوی ہے کہ اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اگر لوگوں کورمضان المبارک کی اصل فضیلت معلوم ہو جائے تو لوگ تمنا کریں کہ سارا سال ہی رمضان کا مہینہ رہے۔ 
 اس مہینے کے فضائل و برکات ان گنت ہیں۔ اس مہینے کی روح کا تقاضا ہے کہ مسلمان اس ماہ مقدس میں اپنے نفس کی تربیت کریں۔ برائیوں کی عادت کو ترک کر کے نیکی اور پرہیز گاری کی راہ اختیار کریں۔عمومی طور پر رمضان کی آ مد کے ساتھ ہی ہمارے روزمرہ معمولات حیات تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ہم اس مہینے میں روزہ رکھتے ہیں۔فرض نماز وں اور نوافل کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ تہجد کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مساجد کی رونقیں بحال ہو جاتی ہیں۔گھر گھر میں تلاوت قرآن پاک کا اہتمام ہوتا ہے۔ درود و سلام کی محفلیں جمتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر زکوٰت ، عطیات،اور صدقات کی کثرت ہوتی ہے ۔جگہ جگہ غریبوں ، مسکینوں کیلئے افطاریوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔لیکن ان سب مثبت اور اچھے رویوں کے ساتھ ساتھ کچھ منفی رویے بھی ہماری زندگی کا حصہ رہتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ روزہ کی حالت بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر روزہ دار عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ گھروں  ، دفاتر ، سڑکوں پر معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے الجھتے اور لڑائی جھگڑے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
سب سے بڑھ کر افسوسناک امر یہ ہے کہ تجارتی اور کاروباری زندگی میں ہمارے معمولات میں مثبت تبدیلی نہیں آتی۔ ہونا یہ چاہیے کہ رمضان المبارک کے احترام میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لائی جائے۔ تاکہ غریب شہری نہایت سہولت اور آسانی کے ساتھ رمضان کی سحری اور افطاری کا اہتمام کر سکیں۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ نہ صرف مسلمان ممالک میں بلکہ مغربی ممالک میں بھی ۔ کرسمس ، ایسٹر کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک کے مہینے میں بھی کھانے پینے اور استعمال کی دیگر اشیاء سستی کر دی جاتی ہیں۔ امریکہ میں مقیم ایک صاحب بتا رہے تھے کہ امریکہ میں وال مارٹ نامی سٹورز کی چین نے رمضان کی آمد سے پہلے کھجور، شربت اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء پر اچھا خاصا ڈسکاونٹ دے دیا ہے۔ یہ اسٹور ایک یہودی کی ملکیت ہیں۔ اس کے باوجود رمضان کا احترام اور مسلمانوں کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈسکاؤنٹ کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ محض ایک مثال ہے۔ دنیا بھر میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ہمارے ہاں مگر متضاد صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ برسوں سے ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان کی آمد سے پہلے مہنگائی کا ایک طوفان آ جاتا ہے۔اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء عوام الناس کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہیں۔ غریب آدمی سارا سال مہنگائی کی چکی میں پستا رہتا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اس طوفان کی شدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اگرچہ حکومتیں رمضان پیکج کے نام پر بھاری بھرکم اعلانات کرتی ہیں۔ اس مقصد کیلئے بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورا ور رمضان بازار قائم کئے جاتے ہیں۔ان جگہوں پر اشیائے ضروریہ نسبتاً سستے داموں دستیاب ہوتی ہیں۔ تاہم ان کا معیار انتہائی ناقص ہوتی ہے۔ رمضان کی آمد سے پہلے یہ طرز عمل بھی عام ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کا ذخیرہ کر لیا جاتا ہے اور رمضان میں زیادہ منافع کمانے کی غرض سے یہ اشیاء انتہائی مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔
دفاتر میں بھی رشوت کا لین دین جاری رہتا ہے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ افسران اور ملازمین روزے اور نماز کا اہتمام تو کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ دفتری سیاست ترک نہیں کرتے۔ ایک دوسرے کو تنگ کرنے۔ نیچا دکھانے اور ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ ہماری سیاست کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ رمضان المبارک کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا جائے۔ عدم برداشت سے گریز کیا جائے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ الزام تراشی اور بد کلامی کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے جس طرح کہ سال کے گیارہ مہینوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ میڈیا کا مخصوص طبقہ جو سال بھر گالی گلوچ اور الزام تراشی میں مشغول رہتا ہے۔ وہ بھی ہنوز اپنی روش پر قائم ہے۔ یعنی ایک طرف روزہ ، نماز، عطیات، صدقات کی کثرت ہے اور دوسری طرف ذخیرہ اندوزی، رشوت خوری، بدکلامی اور بے ایمانی کا بازار بھی گرم رہتا ہے۔ 
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ مہینہ اللہ کی رحمت اور برکت سمیٹنے کا مہینہ ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اس مہینے میں ہم اپنا احتساب کریں۔اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں اور اپنے رویے کی اصلاح کریں۔ حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف ضرور راغب ہوں۔ لیکن حقوق العباد کی طرف بھی خاص توجہ دیں۔ روزے کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ہم بھوکے پیاسے ، نمازوں اور دیگر عبادات میں مشغول رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ اللہ کے بندوں کی زندگی میں آسانی پیدا کریں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رمضان کے مہینے کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ایک ماہ کیلئے اپنا رویہ وقتی طور پر تبدیل کر لیا جائے۔ سارا مہینہ نمازیں ادا کریں ۔ تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کریں۔ بلکہ ہمیں یہ اچھے اعمال سارا سال جاری رکھنے چاہئیں۔ 
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں رمضان المبارک کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس ماہ مقدس کی برکات سے ہمارے رویوں میں مثبت تبدیلیاں آئیں۔ ایسی تبدیلیاں جو سال بھر ہماری زندگی کا حصہ رہیں۔ آمین۔

مزیدخبریں