اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے ووٹنگ کروائے بغیر آرٹیکل 5 کے تحت مسترد کردیا گیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر سرپرائز دیا ہے اورتحریک عدم اعتماد مسترد ہونے کے بعد ڈرامائی انداز اسمبلیوں کی تحلیل اور قبل از وقت الیکشن کا اعلان کرکے ایڈوائس صدر پاکستان کو بھیج دی، جس پر صدر پاکستان نے قومی اسمبلی کوتحلیل کردیاہے۔اب نگران حکومت کی زیر نگرانی 90دن میں نئے الیکشن کروانے ضروری ہیں، تب تک وزیراعظم عمران خان ہی آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت بطور نگران وزیراعظم کام کرتے رہیں گے۔لگتا ہے آئین کے آرٹیکل 5نے آرٹیکل 58 (2) کی جگہ لے لی ہے۔ صدر کی طرف سے اسمبلیاں توڑنے کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد ملک میں آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل187کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس معاملے پر فل بینچ بنا دیا گیا ہے، سپریم کورٹ نے فوری طور پراسپیکر کی رولنگ معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی ہے اور مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔اگرچہ آئین کے آرٹیکل69کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی کو تحفظ حاصل ہے، جبکہ قومی اسمبلی کااجلاس 25اپریل تک ملتوی کر دیا گیا ہے اور آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت وزیراعظم ذمے داریاں جاری رکھیں گے۔توقع ہے کہ سپریم کورٹ ان تمام اقدام کے آئینی وقانونی حیثیت کا تعین کر کے حکم جاری کر سکتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد آئین کے آرٹیکل95کے تحت پیش کی جاتی ہے، جبکہ آرٹیکل فائیو اے کے تحت ریاست سے وفاداری ہر شہری کا فرض ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و قانون نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں کہا کہ کیا بیرون ملک کی مدد سے پاکستان میں حکومت تبدیل ہوسکتی ہے؟ کیا یہ آئین کے آرٹیکل کے 5 کی خلاف ورزی نہیں ہے کہ بیرونی قوتوں کی جانب سے ملک میں رجیم بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد رولز کی خلاف ورزی ہے، لہٰذا وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد مسترد کردی۔ تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے پر اپوزیشن نے اسمبلی میں دھرنا دیااور ہنگامہ آرائی کی، جبکہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے 340 کے ایوان میں سے 197ارکان نے عمران خان کے خلاف علامتی کارروائی کی گئی۔ تاحال اپوزیشن مستقبل کے لائحہ عمل پر متفق نظر نہیں آرہی ہے، تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے کے بعد لائحہ عمل پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اختلاف نظر آتا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نئے وزیراعظم کا عہدہ شہباز شریف کو دینے پر راضی ہوگئی تھی،جبکہ مسلم لیگ ن قبل ازوقت انتخابات چاہتی ہے، زرداری اور بلاول فوری انتخابات کرانے کے موڈ میں نظر نہیں آتے اور پارلیمانی مدت پوری کرنا چاہتے ہیں۔اپوزیشن کی عددی برتری ظاہر کرنے کے بعد تین چار آپشنز کی بات ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں بھی اجلاس 6اپریل تک ملتوی ہوگیا ہے اورگورنر پنجاب کوبرطرف کردیاگیاہے، بلدیاتی انتخابات سے قبل سیاسی ماحول گرم ہوگیا ہے اور اگلے عام انتخابات کا پیش خیمہ بن گیا ہے۔اگرحکومت پریشان ہے تو دوسری جانب اپوزیشن بھی انجام کے حوالے سے گومگو کا شکار ہے۔ کچھ واضح نہیں ہے کہ آئندہ کیا ہوگا؟
آئین پاکستان کا آرٹیکل 5 ہر پاکستانی شہری کی ریاست کے ساتھ وفاداری کو بنیادی ذمہ داری قرار دیتا ہے اسی آرٹیکل کا دوسراحصہ ہر پاکستانی شہری چاہے کوئی عام فرد ہو یا ریاست کا بندوبست چلانے والے عہدیدار آئین و قانون کی اطاعت وپابندی کو ناقابل تنسیخ ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ اسی طرح آرٹیکل 6 کسی بھی شخص کی جانب سے کسی بھی طریقے سے آئین کی منسوخی، تعطل یا خلاف ورزی کو غداری قرار دیتا ہے،اور اس آرٹیکل کے دوسرے حصے میں اس عمل میں معاونت کو بھی غداری ہی قرار دیا ہے۔ اپوزیشن کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے، جب نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے واضع طور پر کہا کہ یہ خط بیرونی سازش ہے اورجو میسج سفیر کو دیا گیا وہ سلامتی کمیٹی میں زیر بحث آیا، تو اپوزیشن کو سمجھ آجانی چاہیے تھی کہ کمیٹی میں تمام سروسز چیف بھی موجود تھے۔ ان حالات میں اس سیاسی بحران کا واحد حل نئے الیکشن ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان فوری طور پر اس آئینی بحران سے ملک کو نکالنے مدد فرمائیے۔ کیونکہ اگر سپیکر کی رولنگ غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی قرار دی جاتی ہے تو عدم اعتمادکی تحریک کے دوران اسمبلی کو توڑنے کااختیاراستمعال نہیں کیا جاسکتالہٰذااسمبلی توڑنے کی ایڈوائس بھی غیر آئینی ہوجائے گی، اور یہ سب کچھ آئین کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہوگی۔
اس سے انکار نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک حقیقت ہے اور کئی سیاستدان خود اپنے ساتھی پارلیمنٹرینز کی بجائے ریاستی حمایت پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ اہم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس آج کیا چوائس موجود ہے؟ کیا وہ مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کی طرف جائیں گے؟یا وہ خود پی ٹی آئی میں عمران خان کا متبادل ڈھونڈ رہے ہیں؟ ان حالات میں وزیراعظم کا قبل از وقت الیکشن کا اعلان بہت سے مسائل، پیچیدگیوں بے اصولیوں اورسیاسی بحران سے قوم کو بچالے گی۔ فوج کی حالات پر نظر ہے۔ ملک و قوم کی سلامتی کیلئے فوج ہر وقت تیار ہے،اور انکی خواہش ہے کہ معاملات آئین کے دائرے میں رہ کر حل ہوں۔ اب دیکھنا ہے کہ آئین کی بالادستی کیلئے سپریم کورٹ کیا احکامات جاری کرتی ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ بھکاری فیصلے نہیں کر سکتے، فیصلہ ہمیشہ لیڈر کرتا ہے، ویسے بھی Baggers can't be chooser!
اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن سیاسی بحران کا حل!
08:51 AM, 4 Apr, 2022