اسلام آبا د: نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کاکہنا ہےکہ میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ نگران وزیر اعظم بنوں گا۔نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے نجی ٹی وی پر انٹرویو میں کہاکہ میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ نگران وزیر اعظم بنوں گا۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ مجھے شہبا زشریف صاحب نے پیغام بھیجا تھا کہ تیار رہو اہم ذمہ داری دینی ہے۔انہوں نے کہاکہ عہدے کی خوشی اپنی جگہ لیکن پریشر بھی ہوتا ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ دوستوں میں مذاق کی حد تک ایسی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔نہیں چاہوں گاکہ آئین کے مطابق وقت سے زیادہ یہاں گزاروں ۔ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن انتخابات کا فیصلہ کرے گا۔
سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی ہمارے لیے قابل قبول ہوگا۔حکومت ایسا نظام بناتی ہے جس سے محروم طبقے پر خرچ ہو۔ پہلے دن آفس سنبھالا تو میٹنگ پاور ٹیرف اور ٹیکس کے حوالے سے کی۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ہماری نیت درست ہے نکتہ چینی کی پروا نہیں ہے۔ میرا کہنا تھا کہ کچھ لوگ احتجاج کو سول وا ر سے تشبیہ دے رہے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔اداروں کی پرائیویٹائزیشن ایجنڈے میں شامل ہے۔
آئین پرائیویٹائزیشن کاراستہ بتاتی ہے۔ مغلیہ انداز میں اعلان نہیں کرنا چاہتا کہ کل پی آئی اے کی نجکاری درکار ہے۔ چنددنوں میں پرائیویٹائزیشن کے ایجنڈے کو پانچ سے دس فی صد بڑھایا ہے۔ تیرہ سے چودہ دن ہماراوقت انہی مسائل میں گزرا۔صوبوں کے ساتھ ایک ہوکر فیصلہ کرنا ہے۔توانائی کی بچت کے لیے چند دنوں میں عملی اقدامات نظرآئیں گے۔ ہماری فنانس اور پاور ٹیم اس مسئلے کامختصر مدتی حل تجویز کرنے جارہی ہے۔
ان کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں کے معاملے میں طاقت اور مذاکرات دونو ں کا استعمال کرنا چاہئے۔ہم پرامن اور خوشحال افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں طرف سے ٹارگٹ حاصل کرنے کے راستے موجود ہیں۔خوشحال پاکستان کے تصورسے خوشحال افغانستان جڑا ہے۔
نو مئی کو جو کچھ دنیا نے دیکھا ایسی ہلڑ بازی ناقابل برداشت ہے۔عالمی اخبارات نے اس سانحہ کو رپورٹ کیا۔ اس طرح کی ہلڑ بازی کسی طرزحکومت میں قابل قبول نہیں۔ انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ بغاوت اور خانہ جنگی کی کوشش تھی۔
سائفر سے متعلق ابھی تک کوئی تحقیقات نہیں کیں۔ بھارت سے روایتی تاریخی رشتہ بدقسمتی سے دوستانہ نہیں رہا ہے۔ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل طلب مسئلہ ہے۔