سبھی اہل پاکستان شایدعالم وحشت میں ہیںاور ہمارا حال شاید ایسا ہی ہے کہ بقول شاعر
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
محترم وزیر اعظم کو جو تقریر 11اپریل کو کرنا تھی وہ انھوں نے یکم ستمبر کو کر دی بہر حال دیر آئے درست آئے ان کی کوئی مجبوری ہو گی ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ برسوںسے جنھیں ہم چور ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ہر دوسرے دن عدالتیں بھی جن کی حاضری لگواناضروری سمجھتی ہیں وہ تو سیلاب متاثرین کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لئے لئے جگہ جگہ خوار ہو رہے ہیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف ایک دن اگر سندھ میں ہیں تو دوسرے دن بلوچستان میں اور تیسرے دن خیبر پختونخوا میں نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح مریم نواز ہیں وہ بھی شدید حبس کے موسم میں جنوبی پنجاب میں سیلاب متاثرین کی دل جوئی کے لئے جا رہی ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری تو حکومتی اور پارٹی دونوں جگہوں پر متحرک نظر آ رہے ہیں اور صرف متحرک نظر نہیں آ رہے بلکہ ان کی حرکت میں برکت بھی نظر آ رہی ہے ۔ وہ میاں شہباز شریف کے ساتھ گھر سے بے گھر ہوئے سیلاب متاثرین کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کر رہے ہیں لیکن ہم چونکہ عالم وحشت میں جی رہے ہیں تو ہمیں یہ ساری باتیں دکھاوا اور ایکٹنگ نظر آتی ہے اور جو ایک دن پولو کے ٹینٹ کے ساتھ مینج کر کے صرف گزرنے کی وڈیو بنوا لیتے ہیں ان میں مسیحائی ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔ اس انتہائی المناک صورت حال میں سیلاب متاثرین کے پاس جانے کے بجائے اب بھی جلسہ جلسہ کھیلنا جن کی اولین ترجیح ہے انھیں کچھ لوگ مسیحا کی مسند پر بٹھانے پر بضد ہیں ۔
کیا شاندار cvتھی کہ جس میں موٹے سنہری حروف میں انمٹ سیاہی سے لکھ دیا گیا تھا کہ ظالموں اس عظیم ہستی پر توشہ خانہ سے گھڑی چوری کا الزام لگا رہے ہو کہ جس کی اپیل پر چند گھنٹوں میں دنیا اربوں روپے دے دیتی ہے اور جب اس نے دوسروں کے ترلے منتوں کے بعد بڑی مشکل سے حامی بھری کہ وہ سیلاب متاثرین کے لئے دنیا سے مدد کے لئے پروگرام کرے گا تو عالم وحشت کے مکینوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور پھر جب دو گھنٹے کے پروگرام میں
پانچ ارب روپے جمع ہو گئے تو عالم وحشت کے باسیوں نے خوشی سے ناچ ناچ کر گھنگرو توڑ دیئے لیکن پھر پتا چلا کہ یہ تو صرف وعدے تھے اور کہنے والوں نے تو یہاں کہہ دیا کہ جب یہ رقم اکاﺅنٹ میں آئے گی تب پتا چلے گا لیکن دو دن بعد ہی آدھی سے بھی کم عمر کے وزیر خارجہ نے جب فقط ایک گھنٹے میں 130ارب اکھٹے کر لئے کہ جو صرف وعدے یا اعلانات نہیں تھے بلکہ یہ ریاستوں کی جانب سے پاکستان کے جواں سال وزیر خارجہ کی اپیل پر سیلاب متاثرین کے لئے امداد تھی ۔ امریکہ اور اس کے علاوہ دیگر دوست ممالک کی جانب سے نقد امداد کے علاوہ ٹینٹ ، ادویات اور کھانے پینے کی اشیاءبھی شامل ہیں ۔ شروع شروع میں اس انہونی پر کسی کو یقین ہی نہیں آیا کہ ہینڈ سم کے علاوہ بھی کسی کی اپیل پر دنیا پاکستان کو اربوں روپے دے سکتی ہے لیکن جب یقین کرنا پڑا تو پھر بولتی بند ہو گئی ۔
عالم وحشت میں صرف عوام ہی نہیں رہ رہے کہ جن کوہر چیز الٹی نظر آتی ہے بلکہ اہل اقتدار کو بھی ہر چیز الٹی نظر آ رہی ہے ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ کچھ عرصہ پہلے پنجاب میں بیس صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے ۔ جن میںپی ٹی آئی کوپندرہ سیٹیں ملیں اور حکومت کو منہ کی کھانا پڑی ۔ اس کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے مہنگائی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی اور یہی بات گذشتہ دنوں فیصل آباد میں نواز لیگ کے عابد شیر علی اور دیگر رہنماﺅں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی کہ ان کا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ مہنگائی سے ہے اور مہنگائی کے سبب ان کا عوام میں جانا مشکل ہو چکا ہے۔ اب 25ستمبر کو جن نشستوں سے سپیکر نے تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور کئے ہیں ان حلقوں میں الیکشن ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر اس مرتبہ بھی تحریک انصاف نے میدان مار لیا تو وفاقی حکومت کے قائم رہنے کا اخلاقی جواز بڑی حد تک کمزور ہو جائے گا لیکن عالم وحشت کے مکینوں کو چونکہ ہر چیز الٹی نظر آتی اور وہ ہر چیز کو الٹا دیکھنے کے عادی ہیں لہٰذا انھوں نے عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی اور اوگرا کی سمری کہ جس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی تجویز دی گئی تھی اس کے برعکس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے اور اس طرح تحریک انصاف کے خلاف الیکشن لڑنے والوں کو چیلنج دیا ہے کہ تحریک انصاف سے تو تم جیت سکتے ہو لیکن ہم سے جیت کر دکھاﺅ تو تب مانیں ۔
اور خان صاحب کو جو توہین عدالت کا نوٹس ملا اس پر تو کمال ہی ہو گیا کہ سب بھائی لوگ سمجھ رہے تھے خان صاحب کو توہین عدالت کی کارروائی کے لئے بلایا گیا ہے لیکن آخر عالم وحشت کے باسی ہیں انھیں ہر بات الٹی ہی نظر آئے گی اور کس کو کس لئے بلایا گیا تھا اس کا عقدہ تو اس وقت کھلا کہ جب کارروائی شروع ہوئی ۔ اگر خان صاحب ملزم تھے جیسا کہ سب لوگ سمجھ رہے تھے تو انھیں کم از کم نظر پٹو کے طور پر ہی سہی دو منٹ کے لئے کٹہرے میں تو لایا جاتا جیسا کہ یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کو کھڑا کیا گیا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کا نام اس لئے نہیں لے رہے کہ انھیں تو تختہ دار تک لے جایا گیا اور پھر پتا نہیں کیوں لوگ اس موقع پر شہید بینظیر بھٹو کو بھول جاتے ہیں جن کی ساری عمر ہی ملزم بن کر کٹہروں میں کھڑے گزری ہے اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری تو اب بھی کٹہرے میں کھڑے ہیں لیکن عینی شاہد بتاتے ہیں کہ خان صاحب تو پروٹوکول کے ساتھ عدالت میں گئے اور وہاں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر کرسی پر بیٹھے رہے اور کبھی کبھی مسکرا کر جو کچھ کہا جا رہا تھا اس پر اظہار پسندیدگی بھی کرتے رہے بہر حال خان صاحب سے اب کہا تو گیا ہے کہ جناب ایک مرتبہ دل پر پتھر رکھ کر مزاج کے خلاف کچھ معذرت کے الفاظ لکھ کر دے دیں باقی ہم ہیں آپ کو فکر کی ضرورت نہیں اور ہم تو آج ہی کیس کو ختم کر دیتے اور مزید تسلی کے لئے حکومت کو بھی کہا گیا کہ آپ بھی یہ غداری وغیرہ کے کیس واپس لیں اور اس طرح کچھ دیر کے شاہانہ انداز میں عدالت میں وزٹ کے بعد خان صاحب انتہائی مطمئن انداز میں واپس گئے ۔ عالم وحشت میں انسان کو بہت کچھ الٹ نظر آتا ہے لیکن جب سر پر پڑتی ہے تو پھر ہر چیز سیدھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے اور قوی امید ہے کہ اہل وطن جو عرصہ دراز سے عالم وحشت میں رہ رہے تھے اب ہوش کی دنیا میں لوٹ آئیں گے اور شوکت ترین کی آڈیو اور خان صاحب کے سیلاب متاثرین کے انسانی المیوں کے باوجود جلسے بھی اگر اہل وطن کو ہوش میں نہ لا سکے تو پھر قصور وار کوئی اور نہیں بلکہ سب کچھ جانتے ہوئے وحشت کا شکار ہونے والے خود ہوں گے ۔