وزیراعظم عمران خان نے غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتےہوئے کہا کہ ہماری حکومت نے معیشت کو درست سمت پر گامزن کر دیا ہے لیکن راتوں رات معیشت درست نہیں کی جا سکتی۔
الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے حکومت سنبھالی تو متعدد معاشی چیلنجز کا سامنا تھا لیکن ہم نے معاشی اصلاحات اور کاروبار میں آسانی کے لیے اقدامات کئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ قرض پر انحصار ہو تو معیشت نہیں چلتی اور ہم نہیں چاہتے کہ ملک قرض پر چلے۔ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں کورونا کے ساتھ عوام کو بھوک سے بھی بچانا تھا، ہم نے آنکھیں بند کر کے مکمل لاک ڈاؤن کی پالیسی پر عمل نہیں کیا۔ ہم نے کورونا سے نمٹنے کیلئے تمام ممکن اقدامات کیے۔
ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئے اور تمام سیاسی جماعتوں کو کہا کہ الیکشن میں دھاندلی کی نشاندہی کریں۔ ہماری حکومت نے خندہ پیشانی سے تنقید کا سامنا کیا۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کے سوال پر جواب دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت میں آر ایس ایس نظریے کی حکمرانی ہے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے اور گزشتہ سال بھارت نے اس پر قبضہ کیا ہے۔انٹرویو کے درمیان عمران خان کا کہنا تھا کہ دنیا بھارت کی مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر رہی ہے لیکن ہم اس مسئلے کو اجاگر کرتے رہیں گے۔ عمران خان نے کہا سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے بہترین برادرانہ تعلقات ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی اس مسئلے اٹھائے۔
وزیراعظم نے کہا ہے کہ جب حکومت سنبھالی تو بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ بدقسمتی سے بھارتی وزیراعظم نے امن کی پیشکش کو قبول نہیں کیا۔غیر ملکی ٹی وی سے انٹرویو میں انکا مزید کہنا تھا بھارت میں انتہا پسندوں کی حکومت ہے۔70 سال سے کشمیر بھارت اور پاکستان میں متنازعہ ہے، مسئلہ کشمیر کا حل فوجی طاقت نہیں ہے۔
عمران خان نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارت میں انتہاپسندوں کی حکومت ہے، پاکستان کے خلاف بھارت کچھ کرے تو ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کچھ ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا فلسطین کے معاملے پر یکطرفہ فیصلوں سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ پاکستان آزاد فلسطین کی حمایت کرتا ہے اور اسی موقف پر قائم ہے۔
پاک چین تعلقات کے سوال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا معاشی مستقبل چین کے ساتھ ہے۔ ہر ملک اپنے مفادات کو دیکھتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے واضع کیا کہ چین سے پہلے کی نسبت زیادہ بہتر تعلقات ہیں۔
مسئلہ افغانستان کے معاملے پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغان مسئلہ کےحوالےسےمیرامؤقف یہی ہےکہ فوجی طاقت حل نہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کا حامی ہے۔ مذاکرات اورافہام وتفہیم سےافغان مسئلے کاحل نکالا جاسکتا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی 19 سالہ جنگ میں بہت خون ریزی ہوئی۔ میں کہتارہا افغان مسئلےکاحل مذاکرات ہیں۔ بعض عناصرافغان امن عمل کومتاثرکرناچاہتےہیں۔
ملکی صورتحال پر بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایلیٹ کا قبضہ تھا جہاں امیر امیرتر ہو رہے تھے لیکن ہم نے پالیسیاں تبدیل کیں۔
وزیراعظم عمران خان نے غیر ملکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں میڈیا پر کوئی قدغن نہیں اور ہماری حکومت اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتی ہے۔
عمران خان نے کہا میرے دور حکومت میں سب سے زیادہ تنقید ہوئی، ہماری حکومت نے خندہ پیشانی سے تنقید کا سامنا کیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت اور فوج کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے۔ سول اورعسکری قیادت کےدرمیان بہترین تعلقات ہیں اور مل کر کام کر رہے ہیں۔