موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو باخوبی علم ہوتا ہے کہ، جہاں مقبوضہ کشمیر میں برسوں سے انسانیت اور امن کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔وہیں جنوبی ایشاء کا امن بھی داؤ پر لگا ہے۔جنوب ایشیاء میں متنازعہ علاقہ کشمیر،بھارت اور پاکستان ملا کر کل رقبہ کا 79فیصد جبکہ کل آبادی کا 85فیصد بنتا ہے۔ان علاقوں میں تصادم کا مطلب جنوبی ایشیاء میں تصادم ہے۔ جس سے جنوبی ایشیاء تو براہ راست اس کی ہولناکیوں کا شکار ہوگا۔مگر جو ممالک آج اپنے تجارتی مفادات کی بدولت کشمیر کے تنازعہ پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔تصادم کی صورت میں ان کے مفادات بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔
جنوبی ایشیاء میں موجود پاکستان اور بھارت اسی بڑے تنازعہ کی وجہ سے ہی آج معاشی لحاظ سے دیگر ہم پلہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہونے کی صورت میں دیگر شعبہ زندگی میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔مانتے ہیں کہ دنیا میں امریکہ، روس اور چائنہ سمیت دیگر ممالک بھی دفاع پر خرچ کرتے ہیں۔ مگر وہ معاشی لحاظ سے ہم سے کافی بہتر ہیں۔
پاک بھارت تقسیم کے وقت جہاں دیگر ریاستیں اپنے مذہبی جھکاؤ کی بدولت پاکستان اور بھارت کا حصہ بن رہی تھیں۔وہیں مسلم اکثریتی ریاست کشمیر بھی پاکستان کا حصہ بننا تھی۔تاہم کشمیری مہاراجہ ہری سنگھ ایک آزاد ریاست کو ہی قائم رکھنا چاہتا تھا۔راجہ کے خلاف لوگوں نے بغاوت شروع کر دی۔راجہ نے طاقت کے استعمال سے بغاوت کچلنا چاہی مگر حالات خاصے بے قابو ہوچکے تھے۔پاکستان سے کچھ قبائلی پشتون اور دیگر گروپ بھی باغیوں کی حمایت میں کود پڑے۔باغیوں نے موجودہ آزاد کشمیر کے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔راجہ نے اس بغاوت کے خاتمے کے لئے انڈین فوج کی حمایت حاصل کرنے کی تگ و دو شروع کر دی۔مگر بھارت نے راجہ سے مطالبہ کیا کہ اگر راجہ بھارت سے الحاق کر لے،تو انڈین آرمی راجہ کی مدد کے لئے کشمیر پر قدم رکھے گی۔تاریخ کے مختلف پہلو ہیں بعض کے نزدیک راجہ نے الحاق نہیں کیا۔بعض کے نزدیک راجہ نے بہلاوے میں آکر بھارت کے ساتھ الحاق کرلیا تھا۔بھارت نے اپنی فوج کشمیر پر اتار دی یوں 1947کی پہلی پاک بھارت جنگ ہوئی۔یہ جنگ 1948 کے آخر تک جاری رہی۔اس کا اختتام ایک لائن کے ساتھ ہوا۔جسے لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔ تاہم شملہ معاہدہ میں 1965اور 1971 کی جنگوں کے بعددونوں ملکوں کے مابین لائن آف کنٹرول کو قائم کیا گیا۔
بھارت نے جب معاملہ ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو، اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے رجوع کر لیا۔اقوام متحدہ نے کشمیر کے مستقبل کے حق میں قرار دادیں منظور کیں۔جس میں کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا گیا۔تاہم ایسی کوئی رائے شماری نہیں ہوئی۔ پاکستان نے مسئلہ کے حل کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔تاہم بھارت اور عالمی برادری ٹال مٹول سے کام لینے لگی۔
آخری بڑا تصادم 1999میں کارگل کے علاقہ میں ہوا۔جو عالمی کاوشوں کی بدولت ختم ہوا۔تب سے آج تک لائن آف کنٹرول پر تناؤ جاری ہے۔
پاکستان اور بھارت جموں کشمیر کی مکمل حیثیت کا دعوی کرتے ہیں۔تاہم چین بھی تیسرے فریق کی صورت میں اس میں شامل ہے۔ہندوستان 55فیصد علاقہ اور 70فیصد آبادی پر قابض ہے۔جس میں جموں، وادی کشمیر، لداخ اور سیاچن گلیشئر شامل ہیں۔پاکستان 30فیصد علاقے کو کنٹرول کرتا ہے۔جس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔جبکہ چین 15فیصد حصے پر کنٹرول رکھتا ہے۔ جس میں زیادہ تر غیر آباد،وادی شاکسام اور اکسائی چن کا علاقہ ہے۔
بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔پاکستان اسے اپنی شہ رگ قرار دیتا ہے۔جبکہ چین اپنے زیر منتظم علاقوں کو اپنا حصہ تصور کرتا ہے۔
کشمیر تنازعہ کی بڑی وجہ پہاڑوں میں گھری اس حسین وادی سے نکلتا پانی بھی ہے۔جو دونوں ممالک میں بڑے حصوں کو سیراب کرتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ بھارت آغاز میں کشمیر سے گزرنے والے پانی کو روکنے میں کامیاب رہا۔جس سے پاکستان کی فصلوں کو نمایاں نقصان پہنچا۔بعد میں اس مسئلہ کو حل کرنے لئے عالمی بینک کے صدر یوجین بلیک نے اپنی خدمات پیش کیں۔اسی ضمن میں 1960 میں پاکستان اور بھارت نے انڈس معاہدہ پر دستخط کئے۔جس کے تحت دریائے سندھ کے تین مغربی دریا جہلم،چناب، اور سندھ پر پاکستان کو خصوصی حیثیت دی گئی۔تاہم آبی مسائل اب بھی موجود ہیں۔جو مستقبل میں تصادم کی وجہ بن سکتے ہیں۔
کشمیریوں کی بات کی جائے تو وہ عالمی برادری سے بہت نالاں ہیں۔کشمیری پہلے راجاؤں کے ظلم کا شکار رہے۔اب بھارتی ظلم سے دو چار ہیں۔کشمیریوں کا برسوں پہلے آزادی کا مطالبہ آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔آزادی کی اس تحریک میں لاکھوں کشمیریوں کا خون شامل ہے۔بھارت کی بغاوت کچلنے کی ہر منصوبہ بندی رائیگاں جا رہی ہے۔ظلم کے اس نہ رکنے والے سلسلے نے کشمیریوں کو مزید پختہ کر دیا ہے۔آج کشمیری جہاں بھارتی ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ وہیں دنیا میں امن کے دعویداروں کی حقیقت کو بھی عیاں کر رہے ہیں۔
جہاں، پاکستان کے وزیر اعظم نے خطے میں امن کی خاطر بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے امریکی صدرٹرمپ سے درخواست کی۔وہیں،بھارت نے مثبت رد عمل کے برعکس،اپنے اقدام سے انتہا پسندانہ نیت کو دنیا کے سامنے واضح کر دیا ہے۔ اگست 5کوبھارتی آئین سے آرٹیکل 370کے خاتمے سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا۔ایسا قدم اٹھانے سے پہلے کرفیو نافذ کیا گیا۔گورنر راج لگا کر بھارتی یونین کا حصہ بنایا گیا۔کرفیو لگے ایک ماہ مکمل ہونے کو ہے۔لاکھوں فوجی تعینات کرکے پورا علاقہ سیل کر دیا۔دکانیں بند، تعلیمی ادارے بند،ہسپتال بند،مساجد بند،انٹرنیٹ معطل، لوگ گھروں میں محصوراور مظاہرین پر تشدد متعدد مظاہرین شہید کر دیے گئے۔نظام زندگی معطل!
پاکستان کو خدشہ ہے کہ بھارت آزاد کشمیر پر دوبارہ فروری جیسی حرکت کر سکتا ہے۔جس سے جنگ شروع ہوسکتی ہے۔لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف گولہ باری جاری ہے۔جس سے آس پاس کے دیہات شدید نقصان کا شکار ہو رہے ہیں۔بھارت کے ایٹمی استعمال کے بیانات نے دونوں ایٹمی طاقتوں کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔جاپان میں ایٹمی بم کی ہولناکیاں کسی سے چھپی نہیں۔
کشمیریوں کا آج بھی یہی مطالبہ ہے کہ،ہمیں حق خود ارادیت فراہم کیا جائے،جسے اقوام متحدہ نے منظور کیا تھا۔تاکہ ہم مزید غلامی سے چھٹکارہ حاصل کر سکیں۔پاکستان کسی صورت جنگ نہیں چاہتا اسی لئے امن کوششوں میں مصروف ہے۔جبکہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے،اور عالمی برادری کے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے جنوبی ایشیاء کو جنگ میں دھکیلنے کی تگ و دو میں ہے۔جنوبی ایشیاء کا امن مسلسل داؤ پر لگاہے۔ ایٹمی طاقتوں کی جنگ کشمیر کے تنازعہ سے جڑی ہے۔افسوس ہے کہ عالمی برادری اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہے۔کیا عالمی برادری بھارت سے خوفزدہ ہے؟ کیا بھارت سے لگے مفادات آڑے آجاتے ہیں؟اگر ایسا ہے تو یاد رکھئے جنگ کی صورت میں سب دفن ہو جائے گا۔مفادات بھی!
(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)