اسلام آباد :بانی پی ٹی آ ئی عمران خان کے تحفظات کے بینچ پر تحفظات کے باعث پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے سماعت کا بائیکاٹ کر دیا۔
آئیں کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی 5 رکنی لارجربینچ کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین اور جسٹس مظہر عالم شامل ہیں۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں بتایا کہ عدالتی حکم پر بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہو گئی ہے، ملاقات میں پولیس افسران بھی ہمراہ بیٹھے رہے، ملاقات کوئی وکیل اور کلائنٹ کی ملاقات نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے خود ویڈیو لنک پر پیش ہونے کی استدعا کی ہے، پہلے معلوم ہو جائے کہ بانی پی ٹی آئی کو خود دلائل کی اجازت ملتی ہے یا نہیں، ان سے ملاقات آزادانہ نہیں ہوئی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کونسی خفیہ باتیں کرنا تھیں، آپ نے صرف آئینی معاملے پر بات کرنا تھی، علی ظفر صاحب، آپ بلا جواز قسم کی استدعا کر رہے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا میں بانی پی ٹی آئی کی جانب سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، میں عمران خان کی ہی بات کروں گا، اگر انہیں اجازت نہیں دیں گے تو پیش نہیں ہوں گے، حکومت کچھ ترامیم لانا چاہتی ہے۔
سپریم کورٹ نے علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کردیا جس پر علی ظفر کا چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا آپ اگر کیس کا فیصلہ دیتے ہیں تو مفادات کا ٹکراؤ ہو گا، چیف جسٹس بولے آپ جو بول رہے ہیں اسے نہ سنیں گے نہ ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے، کیا آپ بطور وکیل یا عدالتی معاون ہمیں دلائل دے سکتے ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا بطور عدالتی معاون دلائل دے سکتا ہوں۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں بینچ قانونی نہیں اس لیے آگے بڑھنے کا فائدہ نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ بار بار عمران خان کا نام کیوں لے رہے ہیں، نام لیے بغیر آگے بات کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا میں اور جسٹس میاں خیل پہلے والے بینچ کا بھی حصہ تھے، ہم دونوں پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا گیا، جس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا اعتراض بینچ کی تشکیل پر ہے کسی کی ذات پر نہیں۔