قومی سیاست کی ہنگامہ خیزی اپنے عروج پر ہے۔ سیاست دان حسب معمول ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں مشغول ہیں۔ کہیں مالی کرپشن کے الزامات سننے کو ملتے ہیں۔ کہیں سائفر کی کاپی غائب ہونے کے قصے ہیں۔کہیں جلد ا لیکشن کروانے کے مطالبات دہرائے جاتے ہیں۔ کہیں آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ زیر بحث آتاہے اور کہیں عدالتی فیصلے۔ قومی میڈیا کا زیادہ تر وقت بھی انہی سیاسی کھیل تماشوں کیلئے مختص رہتا ہے۔ ٹی۔وی ٹاک شوز میں اہم ملکی اور عوامی مسائل کو سنجیدگی سے زیر بحث لانے کے بجائے، سیاستدان آپس میں الجھتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ کوئی نئی صورتحال نہیں ہے۔ برسوں بلکہ عشروں سے ہمارے ہاں یہی سرکس جاری ہے۔ پاکستان کی سیاست ہمیشہ افراتفری اورانتشار کا شکار رہی ہے۔البتہ کچھ برسوں سے تبدیلی یہ آئی ہے کہ چور، ڈاکو، لٹیرے، جیسے القابات نہایت عام ہو چلے ہیں۔اس تبدیلی کا سہرا عمران خان کے سر ہے۔کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستانی عوام اب اس طرح کی سیاست کے عادی ہو چلے ہیں۔ لیکن اس وقت صورتحال قطعاً مختلف ہے۔ اس وقت آدھا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ یہ ملکی تاریخ کا بدترین اور خوفناک ترین سیلاب ہے۔کروڑوں شہری اس آفت سے متاثر ہوئے ہیں۔ لاکھوں مکان سیلابی پانی کی زد میں آ کر تباہ ہو چکے ہیں۔ہزاروں،لاکھوں مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔ سڑکوں، شاہراہوں اور انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ لاکھوں ایکڑ زرعی زمین اور تیار فصلیں بھی سیلاب کی وجہ سے برباد ہوچکی ہیں۔ اس بربادی کے نتیجے میں اناج کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ مہنگائی، جس نے پہلے ہی عوام الناس کی کمر توڑ رکھی تھی، اس کی ایک نئی لہر اٹھی ہوئی ہے۔
مصیبت کی یہ گھڑی قومی اور سیاسی یکجہتی کی متقاضی ہے۔ لیکن کیا کریں کہ دکھی کر دینے والی اس صورتحال میں بھی سیاست دانوں کو اپنے سیاسی مفادات کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ سیلاب کے ہنگام عمران خان کو سیاسی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ کچھ عرصہ کیلئے جلسے جلوس موخر کر دیں۔ لیکن انہوں نے اس نصیحت پر کان نہیں دھرا۔ وہ تواتر کیساتھ جلسے کرتے رہے۔سنتے ہیں کہ اب وہ جلسوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنے والے ہیں۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ جلد ہی وہ احتجاج کی کال دیں گے۔ تاکہ اس حکومت کو گرایا جا سکے۔ دوسری طرف تحر یک انصاف کے سیاسی بیانات اور پریس کانفرنسوں کے بعد حکومتی جماعتوں کے ترجمان بھی جوابی وار کرنے سے نہیں چونکتے۔ یہ خبریں بھی سننے میں آرہی ہیں کہ حکومت عمران خان پر غداری کا مقدمہ درج کرنے کا معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ فی الحال سیاسی حملوں،پریس کانفرنسوں، الزام تراشی وغیرہ کا سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے۔نجانے یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔
بہت اچھا ہوتا اگر حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اس وقت اپنی توجہ سیلاب متاثرین کی طرف مبذول رکھتے۔ اپنے تمام تر وسائل،اپنا زور بازو، اپنی عوامی مقبولیت کو متاثرین کی امداد اور داد رسی کیلئے بروئے کار لاتے۔ عمران خان اگر جلسے جلوس کرنے کے بجائے، اپنا وقت سیلاب سے متاثر اہل وطن کیساتھ گزارتے۔ ان کے لئے امداد اکٹھی کرنے میں اپنی عوامی مقبولیت کا استعمال کرتے تو ان کا کتنا اچھا اور مثبت تاثر ابھرتا۔ لیکن افسوس گزشتہ کئی سال سے ان کی تمام تر توجہ کا محور صرف شریف اور زرداری خاندان ہیں۔جب وہ حکومت میں تھے، تب بھی یہی معاملہ تھا۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔ دوسری طرف حکومت بھی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتوں کی ذمہ داری اپوزیشن کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ عوام کی امیدیں بر اقتدار سیاسی رہنماؤں سے ہی وابستہ ہوتی ہیں۔ کاش موجودہ حکومت ہی سیلاب متاثرین کے لئے جوابی پریس کانفرنسوں کا سلسلہ موقوف کرنے کا اعلان کر دیتی۔سیاست دانوں کو یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ یہ ربیع الاول کا با برکت مہینہ ہے۔اس ماہ مبارکہ میں پیارے نبی حضرت محمدؐکی ولادت باسعادت ہوئی تھی۔اس مہینے کے تقدس کا تقاضا ہے کہ باہمی لڑائی جھگڑوں اور الزام تراشی سے گریز کیا جائے۔ بد زبانی اور بد کلامی سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن اس جانب بھی کسی سیاسی جماعت کی توجہ نہیں گئی۔ گزشتہ چار پانچ سال سے ملکی معیشت کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ روپے کی قدر بے انتہا گر چکی ہے۔ قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔مہنگائی،بیروزگاری، لاقانونیت اور بے انصافی کا دور دورہ ہے۔ غریب آدمی کیلئے زندگی مشکل ہو چلی ہے۔
اس سارے قومی منظرنامے میں ذاتی اور شخصی مفادات پر مبنی سیاست کچھ اچھی معلوم نہیں ہوتی۔ یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ سیاست دانوں نے ہر ملکی اور عوامی معاملہ سیاست کی نذر کر رکھا ہے۔ یہاں تک کہ نہایت حساس دفاعی اور عدالتی معاملات بھی گلی محلے کے موضوع بن چکے ہیں۔میں نے پچھلے کسی کالم میں ذکر کیا تھا کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے معیشت کے میدان میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بھارت اب دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے، جبکہ برطانیہ، جس نے ہندوستان پر 89 سال حکمرانی کی تھی، وہ چھٹے نمبر پر چلا گیا ہے۔ ایک تازہ خبر یہ ہے کہ ایپل نے اپنے آئی۔فون 14 کی پیداوار بھارت میں شروع کر دی ہے۔ اس سے پہلے یہ موبائل فون چین میں تیار ہوا کرتے تھے۔ ایسی خبروں پر ہم صرف ٹھنڈی آہ ہی بھر سکتے ہیں۔ ہمارے اہل سیاست اور ارباب اختیار کو ایسی خبروں سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے ساتھ یا بعد میں آزاد ہونے والے ممالک (مثلا ًبھارت، بنگلہ دیش، چین) کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں۔ لیکن ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔یہ ممالک چاند پر بھی پہنچ جائیں، ہم بے فکر اور بے نیاز رہیں گے۔ وجہ یہ کہ ہماری ترجیحات مختلف ہیں۔ کاش ہمارے سیاست دان باہمی اختلافات اورلڑائی جھگڑوں میں الجھنے کے بجائے عوامی مسائل کے حل اور ملکی ترقی کی فکر کریں۔ کاش آپس میں مقابلہ کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے، یہ سیاسی رہنما ارد گرد کے ممالک سے مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔ مگر سچ یہ ہے کہ دور دور تک ایسا کوئی امکان، کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔