مذاکرات، طالبان پاکستان کے ساتھ!

Atta ur Rehman, Daily Nai Baat, e-paper, Pakistan, Lahore

یہ غالباً 2014 کے آغاز کی بات ہے ابھی عمران خان نے وزیراعظم نوازشریف کے خلاف 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کا غلغلہ بلند نہیں کیا تھا…… 14 اگست 2014 کے دھرنے قدرے دور کی بات تھی خان بہادر کی دعوت پر نوازشریف اُن سے خصوصی ملاقات کے لئے سیاسی مخالف کی قیام گاہ بنی گالہ گئے…… کھلاڑی نے خلافِ معمول تواضع کی…… تحریک انصاف کے چیئرمین اپنے مہمان کو رخصت کرنے کے لئے دروازے کے باہر تک آئے…… ان سے مطالبہ کیا گردوپیش میں جو ٹوٹ پھوٹ ہے اس کی مرمت کرا دیں …… اسی چہل قدمی کے دوران وزیراعظم پاکستان نے میزبان کے پاپوش پر نگاہ ڈالی اور پوچھا خان صاحب یہ سلیپر طالبان نے تو نہیں لے کر دیئے…… میزبان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا نہیں …… انہوں نے خود پاؤں کے سائز کے مطابق تیار کرائے ہیں …… بات ختم ہو گئی لیکن وزیراعظم اس تاثر کو پختہ کرنے میں کامیاب رہے کہ خان بہادر اپنے دل و دماغ میں طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں …… اسی بنا پر انہیں اب تک طالبان خان کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے…… پاکستانی طالبان کی مسلح کارروائیاں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تیزی کے ساتھ جاری تھیں …… کوئی کہتا تھا ان کے پیچھے فلاں فلاں ریاستی قوت کارفرما ہے، کسی کا خیال تھا 2007 میں لال مسجد کے اندر جو کچھ ہوا اس کا ابھی تک بدلہ لے رہے ہیں …… ایک رائے یہ تھی کہ اندرونِ افغانستان اپنے وطن کی آزادی کے لئے سرگرم عمل تحریک طالبان پاکستانی چیپٹر کی بھی پشت پناہی کرتی ہے…… دونوں ایک دوسرے کو پناہ گاہیں، اسلحہ اور افرادِکار مہیا کرتے ہیں …… اصل حقیقت جو بھی تھی اور شاید تینوں باتوں میں اپنی اپنی جگہ صداقت کا عنصر پایا جاتا تھا…… یہ سوال بھی عمومی طور پر اٹھایا جاتا تھا…… طالبان کو اپنے مقاصد میں کامیابی مل گئی اور انہوں نے اپنی سرزمین وطن کو امریکی قبضے سے آزاد کرا لیا تو کیا ان کے پاکستانی بھائی بھی اسلحے اور مسلح جدوجہد کے بل بوتے پر ہمارے قبائلی علاقوں پر قبضہ جمانے کی کوششیں جاری رکھیں گے یا سب کچھ کو خیرباد کہہ کر پاکستان کے ریاستی اداروں اور حکومت کے ساتھ صلح کا علَم بلند کر دیں گے…… تاہم اس ضمن میں اس خدشے کا اظہار کرنے والے صاحبانِ نظر زیادہ تھے کہ پاکستانی طالبان بھی افغانوں سے اخلاقی اور اصولی کمک حاصل کرنے کے بعد ان کی کامیابی سے حوصلہ پکڑ کر اپنے مطالبات میں شدت اختیار کر لیں گے کہ اسی طرح کا شریعت لاء پاکستان میں بھی نافذ کیا جائے جیسا کہ ملکِ افغاناں کے طالبان اپنے وطن میں نافذ کرنے جا رہے ہیں …… اب جو افغان طالبان نے اپنی منزل کی جانب پہلا کامیاب قدم اٹھا لیا ہے…… ملکِ افغاناں میں ان کا راج قائم ہو گیا ہے تو پاکستان کے ریاستی اداروں اور حکومتی ایوانوں دونوں کو اس سوال کا سامنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اپنی مسلح کارروائیاں جاری رکھے گی یا صلح کی راہ اختیار کر کے پُرامن طریقے سے ہتھیار پھینک کر پاکستانی ریاست کے آئینی نظام کو قبول کر لے گی……
پہلے مذاکرات کا اشارہ صدر عارف علوی کی ایک گفتگو سے ملا اور اب وزیراعظم عمران خان نے ترک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے کچھ گروہوں کے ساتھ ملکِ افغاناں کے کسی حصے میں مذاکراتِ صلح و امن جاری ہیں …… طالبان کی افغان حکومت اس ضمن میں سہولت کاری یا ثالثی کے فرائض سرانجام دے رہی ہے…… گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران یہ ساکنانِ وطن کے لئے سب سے بڑی خبر کے طور پر سامنے 
آئی ہے اگرچہ بہت زیادہ حیران کن نہیں، ایسے مذاکرات ہونا ہی تھے کیونکہ پاکستان کے ریاستی ادارے اور حکومت کے ایوان ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کے زیادہ متحمل نہیں ہو سکتے تاہم پہلا سوال یہ ہے کہ کئی دھڑوں میں بٹے ہوئے پاکستانی طالبان کے کس کس گروہ سے مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا ہے…… حکومتی ترجمانوں کا کہنا ہے ہماری جانب سے آئینِ مملکت کو تسلیم کرنا اور ہتھیار پھینک کر مسلح جدوجہد کو خیرباد کہنا بنیادی شرائط میں سے ہے…… ان پر طالبان پاکستان نے کیا ردعمل دیا ہے اور اپنی جانب سے کن شرائط کو وہ پاکستانی مذاکرات کاروں کے سامنے لائے ہیں اس بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں لہٰذا نہیں کہا جا سکتا کہ مذاکرات کا انجام کیا ہو گانہ بظاہر یہ بات طے ہوئی ہے طالبان کسی قسم کے سمجھوتے پر پہنچنے سے پہلے عارضی طور پر مسلح کارروائیاں بند کر دیں گے یا نہیں …… یہاں تو یہ بھی طے نہیں کہ کون سے دھڑے شریکِ گفتگو ہیں اوہر کون سے نہیں …… لہٰذا کچھ صاحبانِ نظر کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کدّو پر تیر چلانے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی…… اسی سے جڑا یہ سوال بھی اہلِ پاکستان کے دماغوں میں انگڑائیاں لے رہا ہے کہ پاکستانی طالبان کے منقسم دھڑوں کی بات اپنی جگہ مگر وہ جو دوسرے ہمسایہ ملکوں میں گڑبڑ پھیلانے والی مسلح قوتوں کے گروہ ہمارے ملک خاص طور پر قبائلی علاقوں کی کمین گاہوں کے اندر چھپے بیٹھے ہیں، انہیں بھی کسی سمجھوتے کا پابند کر کے یہاں سے دیس نکالا دیا جائے گا یا نہیں …… لہٰذا یہ بات کہنی جتنی آسان ہے کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ ان کے افغان بھائیوں کی سہولت کاری میں ہمارے مذاکراتِ امن جاری ہیں، اتنا ہی اس کی عملیات کا حصول مشکل اور پیچیدہ نظر آتا ہے مگر یہ بات طے سمجھی جانی چاہئے اگر ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانا اور کامیابی کی منزل تک پہنچانا مقصود ہے تو اس مقام تک پہنچنے کی خاطر عمران حکومت کی بجائے پاکستان کے ریاستی اداروں اور افغان طالبان کی قیادت کا طرزِعمل فیصلہ کن اہمیت رکھے گا…… 
صورتِ واقعہ کا ایک پہلو وہ ہے جسے وزیراعظم کا طالبانِ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی شروعات کی خبر دیتے ہی ملک کے اپوزیشن لیڈروں نے بڑے زوروشور اور قوت کے ساتھ اجاگر کیا ہے…… پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں کے جیّد پارلیمانی رہنماؤں کی جانب سے کہا گیا ہے وزیراعظم بہادر کو مذاکرات شروع کرنے سے پہلے منتخب پارلیمنٹ کو مکمل طور پر اعتماد میں لینا چاہئے تھا کیونکہ اس کا تعلق ملک کی داخلی اور بیرونی سلامتی سے بہت گہرا اور نازک ہے…… طالبانِ پاکستان نے اپنی دہشت گردی اور مسلح کارروائیوں کے ذریعے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی تھی…… انہوں نے نازک ترین اور حساس دفاعی مقامات پر حملے کئے یہاں تک کہ 2009ء میں جی ایچ کیو جیسی فوج کے مرکزی صدر مقام پر قبضہ کر لیا…… کامرہ کے دفاعی ہوائی اڈے  اور کراچی پورٹ جیسے مقامات پر اچانک حملے کر کے ہر مرتبہ ایسے زلزلوں کی کیفیت پیدا کی کہ پوری قوم حواس باختہ ہو کر رہ جاتی تھی، ہزاروں بے گناہ شہری جو اس طرح کے لاتعداد حملوں کی زد میں آ کر جانو سے ہاتھ دھو بیٹھے، شہری املاک کا بے پناہ نقصان برداشت کرنا پڑا وہ مستزاد تھا…… طالبان پاکستان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا 2007ء سے لے کر اب سے قبل تک کا وہ دور ہے جو پوری قوم کے لئے ڈراؤنے خواب کا درجہ رکھتا ہے…… ان سب سے بڑھ کر دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر جس بے دردی کے ساتھ حملہ کر کے قوم کے پھولوں جیسے معصوم بچوں، ان کے عظیم اساتذہ اور خاص طور پر آرمی پبلک سکول کی عظیم تر ماں کا درجہ رکھنے والی ہیڈمسٹریس یا پرنسپل صاحبہ نے اپنے طالب علموں کی حفاظت کرتے ہوئے دہشت گردوں کی گولیوں کی زد میں آ کر جس والہانہ طریقے سے جان قربان کر دی کیا اس سنگین، ہولناک اور معصوموں کے خون کی ندیاں بہا دینے والے درد انگیز واقعے کو محض معافی کا اعلان کر کے بھلایا جا سکتا ہے…… اس سے بھی زیادہ سنگین اور خوفناک درجے کا سوال یہ ہے آرمی پبلک سکول کے واقعہ کا سرغنہ اور طالبان کا سابق ترجمان احسان اللہ احسان آخر اب تک کیوں زندہ بتایا جاتا ہے…… اگر زندہ ہے تو اس کے خلاف مقدمہ چلا کر کیفرکردار تک کیوں نہیں پہنچایا گیا…… اس نے وقوعے کے بعد کئی مہینے کس کی خفیہ حفاظت میں گزارے اور بعد میں جو کہا جاتا ہے احسان اللہ احسان نے ترکی میں جا کر پناہ لے لی تو اتنے بڑے قومی مجرم کی اس تمام تر حفاظت کا کن قوتوں کے زیرسایہ اور کس مقصد کی خاطر انتظام و انصرام کرایا گیا…… کیا طالبان کی ان تمام وارداتوں پر محض یہ کہہ کر پردہ ڈالا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ہتھیار پھینک دیئے ہیں، آئین کو تسلیم کر لیا ہے لہٰذا عام معافی کے مستحق ہیں …… لازم ہے وزیراعظم عمران خان اس سارے معاملے کو اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ مل کر زیربحث لائیں …… ان کی آراء سے استفادہ کریں …… ان کی روشنی میں قابل عمل قومی پالیسی تشکیل دی جائے جس کے تحت طالبان پاکستان کے ساتھ ہر نوعیت کے معاملات طے کیے جائیں …… معاملہ اتنا آسان نہیں اسے اپنے طالبان خان کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے…… طالبان اپنے ہمدرد کو غنچہ دے کر معافی حاصل کر لیں اور جب چاہیں خفیہ کارروائیاں جاری کرنے میں پیچھے نہ رہیں …… یہ ایک سنگین اور نازک قومی مسئلہ ہے اسے اتنی ہی سنجیدگی کے ساتھ حل کرنا ہو گا……