امریکی، عالمی تسلط سے بے نظیر، بے بہا آزادی حاصل کرنے والا افغانستان، حقیقی آزادی کی چھب دکھا رہا ہے۔ کمزور ترین معاشی حالت، عالمی دشمنوں کے بغض ہر آن مونہوں سے پھوٹے پڑ رہے ہیں، تاہم قیادت کی خوداعتمادی، عزم، یقین جس کی جڑ بنیاد توکل علی اللہ ہے، دیدنی اور لائق تقلید ہے۔ پلٹ کر اپنے ہاں ایف اے ٹی ایف اور مغرب سے معاشی کفالت طلب کاسہ لیسی، خوشامد، چاپلوسی کریہہ منظر محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنی شناخت پر نازاں ہم اپنی شناخت کھرچ کھرچ کر مٹا ڈالنے کے درپے۔ صرف چند بیانات کی قطعیت مردان حر کی بصیرت کی خبر دیتی ہے۔ وزیر خارجہ ملامتقی: ’20 سال میں دنیا کے لیے خطرہ نہیں تھے۔ اب بھی دباؤ نہ ڈالا جائے۔‘ ملا نورالدین ترابی، شرعی حدود کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے: ’عالمی برادری ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے، ہمارے قوانین پر لیکچر نہ دیے جائیں، کوئی بھی ہمیں نہیں بتائے گا کہ ہمارے قوانین کیا ہونے چاہئیں۔ ہم اسلام پر عمل کریں گے اور قرآن کی رو سے قوانین بنائیں گے۔‘
یہ امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو ملاترابی کا انٹرویو تھا! دوٹوک! اور اب معاون وزیر اطلاعات نے بجا طور پر مظلوم مسلمانوں کے حق کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ وہ آواز جو توحید کی قوت سے قوی ہے! کشمیر، میانمار اور فلسطینی بھائیوں کے لیے۔ ہم بھارت نواز شمالی اتحاد کے پنجشیریوں اور اشرف غنی کے پاکستان دشمن بھگوڑوں کی آؤبھگت اور میزبانی طالبان کے مقابل کرتے رہے اور طالبان نے دنیا کو پکارا کہ کشمیر میں بھارتی جارحیت بند کروائے۔ ہمیں دوست کی پہچان تک نہیں۔ ہم فکری اسیر ہیں، کتنے ہی دھوم دھڑکے سے یوم آزادی کیوں نہ منا لیں۔ مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی، کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری۔ تو اے مولائے یثربؐ آپ میری چارہ سازی کر، مری دانش ہے افرنگی مرا ایمان ہے زنّاری! یہ ہمارے مرض کی تشخیص ہے۔ یوں بھی قرض داروں، کشکولوں والوں کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔ فرمائشی پروگرام کشکول بھرنے والوں کے چلتے ہیں۔ اسلام والوں کے گھیراؤ، ستاؤ، بھگاؤ کا حکم ہے۔ نظام تعلیم سے ایمانیات، اخلاقیات نکال باہر کرنے کا حکم ہے۔ باضابطہ، ببانگ دہل مخصوص سیکولر فکر اساتذہ ہر تعلیمی ادارے میں زورآوری سے داخل کیے گئے ہیں۔ راست فکر طلبہ و طالبات کی تحقیر تخویف ان کی ذمہ داریوں میں سے ہے جسے وہ خوب نبھاتے ہیں۔ نمازوں کے اوقات میں اساتذہ/ طلبہ کو تاک کر مصروف کرنا، جمعہ گم کروانا بلاسبب نہیں، ایک پلاننگ کے تحت جابجا جاری ہے۔
اب ’جبری‘ تبدیلیئ مذہب کی آڑ میں قبولیت اسلام کو عار اور جرم بنانا، ’ریاست مدینہ‘ کا طرہئ امتیاز بننے چلا ہے۔ -5 10سال قید، لاکھ دو لاکھ جرمانہ۔ ایسے نکاح کے پڑھانے پر سہولت کاری کا پرچہ کاٹنے کی تیاری! اور یہ جو کفر کی ہمہ گیر عسکری، مذہبی سہولت کاری کا جرم ہے وہ آخرت میں تو جس گڑھے کا سامان کرے گی خدا کی پناہ، دنیا میں گرفت آگئی تو کیا بنے گا؟ اسلام سے خوفناک تصادم کا یہ بل، جس پر بلبلانا بھی جرم ہونے کو ہے، حکومت کی روسیاہی کا بھاری سامان ہے۔ شرعاً بلوغت کی عمر بہرصورت 15 سال لازماً ہے۔ (علامات جلد ظاہر ہوجائیں تو کم عمر میں بھی بلوغت قرار پاتی ہے۔) اس بل کے لیے فٹیف (FATF) بلوغت 18 سال قرار پائی ہے۔ معاشی مجبوری پیکیج ہے یہ۔ حکمرانوں کی بالغ نظری اور ذہنی بلوغت میں حد درجے تاخیر کا معاملہ ہے۔ جہاں 40، 50کے پیٹے میں بھی نماز فرض نہیں گردانی جاتی، بلانماز ایوانہائے اقتدار میں پائے جاتے ہیں وہاں عمر کی حدبندی کیا ہو! ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ کندھ کوٹ میں عدالت نے بھینسوں کو (غفلت کی بنا پر) کرنٹ لگنے کے ملزمان کو سزا سنانی تھی۔ فیصلہ یہ قرار پایا کہ ملزم 2 سال تک نماز پابندی سے پڑھیں گے اور مسجد کی صفائی کریں گے! گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل!
’ریاست مدینہ‘ کا لیبل چسپاں کیے گئے ملک عزیز میں، وزیراعظم کی امانت ودیانت کے گن گانے والے انہیں ملنے والے سرکاری تحائف کے سوال پر پھنس گئے۔ صاف چلی شفاف چلی ٹرین اٹک کر رہ گئی۔ ایک طرف امریکا برطانیہ ان کے لیے لائق تقلید اسوہ کی معراج ہے۔ وہاں دیکھیں تو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سرکاری تحائف جو بیرونی شخصیات مقتدرینِ امریکا کو دیتی ہیں، ان کی مکمل فہرست اور تفاصیل جاری کرتا ہے۔ جس میں ٹرمپ جیسا صدر بھی ایک تحفہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتا۔ وہ بھی شکم سیر نکلا۔ یہاں یہ قومی راز بناکر ایٹم بم چھپانے والی جگہ رکھ دیا گیا ہے۔ معما بنا ہوا ہے۔ پوچھنا منع ہے۔ ایسی باتوں میں ہم گورے کی تقلید کیوں کریں! تو چلیے دربار نبوت سے فیصلہ لے لیجیے۔ (براستہ اسپین وبغداد مغرب نے حکمرانی کے اسلوب اور شفافیت اگر سیکھی ہے تو یہیں سے سیکھی ہے!) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو افسر (زکوٰۃ وصولی پر عامل) بناکر بھیجا۔ واپس آکر اس نے حساب دیا تو کہا: یہ رہا آپ کا مال اور یہ (میرے) تحائف ہیں۔ اس پر آپ نے ناراض ہوکر فرمایا: ’تم واقعی ان تحفوں کے حق دار تھے تو اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھ رہے کہ یہ تحفے تمہیں وہاں پہنچ جاتے؟‘ یہی بات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے خطاب میں فرمائی…… ’واللہ تم میں سے جو کوئی ایک چیز ناحق قبول کرے گا وہ روز قیامت اس شے کا بوجھ اٹھائے اللہ کے روبرو آئے گا۔ میں اس شخص کو ضرور پہچان لوں گا جو ایک بلبلاتا اونٹ یا ڈکراتی گائے یا منمناتی بکری کندھوں پر اٹھائے اللہ کے دربار میں آئے گا۔‘ (بخاری) ہمارے ہاں تو سیلاب زدگان کے لیے 2010ء میں بیگم طیب اردوان کی جانب سے دیے جانے والے ذاتی قیمتی ہار کے اعلیٰ ترین سطح پر غائب ہوجانے کا اسکینڈل بھی موجود رہا!
افغانستان پر واویلا کاروں (بشمول پاکستان) کا سب سے بلند آہنگ شور مخلوط حکومت کا ہے۔ شراکت کاری پر زور دینے والوں کو یاد دلاتے رہنا ضروری ہے کہ آپ جمع ضدین پر مُصر 20 سال کے امریکی وفاداروں کو، مزاحمت میں جانوں کی قربانیاں دینے اور کامیاب انقلابی حکومت قائم کرنے والوں کے برابر بٹھانے کا حکم صادر فرما رہے ہیں؟ پہلے پوری دنیا میں یہ فارمولا برت لیں۔ مثلاً مصر کے السیسی اخوان المسلمین کو حکومت میں شامل فرمائیں۔ (7 فیصد کا نمایندہ بشارالاسد پورا شام تباہ اور مہاجر کرچکا۔اس کی خبرلیں۔) قابض اسرائیل حماس کو حکومت میں حصہ دار بنائے۔ مودی بھارت میں اسدالدین اویسی کے گھر چھاپے مارنے کی بجائے انہیں وزیر داخلہ بنائے۔ ہر دلعزیز مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کرنے کی بجائے شریک حکومت کرے۔ اور پاکستان کے سارے جھگڑے نمٹ جائیں، نوازشریف کو شامل کرکے حکومت تشکیل دیں۔ فواد چودھری کی جگہ مریم نواز مخلوط حکومت کا حصہ ہوں۔ اس کے بعد جلاوطن احمد مسعود ودیگر کی طالبان حکومت میں شمولیت کا مطالبہ کریں!
افغانستان میں شرعی سزاؤں کے اعلان پر ’انسانی حقوق‘ کے نعرے بلند کرنے والے 20 سال میں باگرام، پل چرخی، ابوغریب، گوانتامو اور عافیہ صدیقی پر آزمائے گئے ’انسانی حقوق‘ کا باب کھولنے پر تیار ہیں؟ عبدالرشید دوستم اور شمالی اتحاد کے شرمناک جرائم پر دم سادھنے والے امریکا کو آج حقوق انسانی کا فتویٰ یاد آیا؟ اس اندیشے پر کہ ایک چور کا ہاتھ کاٹنا تو حقوق انسانی کی شدید خلاف ورزی ہوگی! ڈیزی کٹر اور صفحہئ ہستی سے پورے پورے شہری آبادی سے بھرے دیہات اجاڑنے میں تو کوئی حق آڑے نہ آیا۔ آج باگرام کی یادیں تازہ کرنے والے بتاتے ہیں کہ کس طرح ہاتھ پیر باندھ کر بجلی کے جھٹکے دیے جاتے تھے۔ اضافی تفتیش کے تحت کس طرح طالب قیدی سلطان کے دانت سارے توڑ دیے۔ اور بے شمار ایسے ہی انسانیت سوز مظالم پر ’حقوق والوں‘ کے کان پر جوں نہ رینگی۔ افغانوں پر کہیں بھی جنیوا کنونشنز کا اطلاق نہ ہونے دیا گیا، بلکہ سبھی مسلمان قیدی ہر جگہ۔ POW جنگی قیدی قرار نہ دیے گئے تاکہ ان پر ہر وحشیانہ ظلم آزادانہ آزمایا جاسکے۔ اس تقابل میں آج عبرت انگیز شرعی سزاؤں پر میڈیائی بگولے اٹھتے جھکڑ چلتے ہیں اور مغرب لرزہ براندام ہوجاتا ہے۔ اصلاً تو شرعی قوانین عالمی اشرافیہ کے گلے کی پھانس ہیں۔ یہی طبقے ملک ملک عوام کے حقوق غصب کرتے بدعنوانی، ظلم وجور، اغواکاریوں، چور بازاری اور شرعی جرائم میں مبتلا ہوتے اور مستوجب ِسزا دکھائی دیتے ہیں! چنانچہ سب ہم آواز شرعی سزاؤں کے خلاف راگ الاپتے ہیں!
اے کہ غلامی سے ہے روح تری مضمحل
سینہئ بے نور میں ڈھونڈ خودی کا مقام
مردانِ حق کی مثال ہی سے یہ جمود ٹوٹے گا!