دوستو، لفظ ظالم اردو زبان میں عربی سے آیا ہے، جس کے معنی ہیں، ظلم و ستم کرنے والا، زورزبردستی کرنے والا، سنگ دل،ستم گر، بے رحم وغیرہ۔۔ لیکن نوجوانوں میں ایک اور ”ظالم“ بھی معروف ہے، مثال کے طور پر کہیں بہت ہی خوب صورت لڑکی جارہی ہوتو ایک نوجوان دوسرے سے بے ساختہ کہہ اٹھے گا۔۔ ہائے کیا ظالم لڑکی ہے یار۔۔ حالانکہ اس لڑکی نے کوئی ظلم نہیں کیا ہوتا۔۔ اسی طرح کوئی بھی چیز جو من کو بھاجائے نوجوان اسے ”ظالم“ سے تشبیہہ دیتے ہیں، جیسا کہ۔۔ کیا ظالم چائے بنائی ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ اسی طرح آج ہم اپنی اوٹ پٹانگ باتیں۔۔ اصلی ظالم اور نوجوانوں کے ظالم سے متعلق ہی کریں گے۔۔ یعنی جب ہم ظالم بیویاں کہہ رہے ہیں تو اس کے دونوں مطلب نکالے جاسکتے ہیں۔۔
ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سعودی عرب میں پانچ فیصد مرد بیویوں کے ہاتھوں سے پٹتے ہیں۔عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق انسداد گھریلو تشدد کمیٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ بعض حالات میں بیویوں کی طرف سے شوہروں کوانتہائی تشدد اور جسمانی اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔رپورٹ کے مطابق کمیٹی سربراہ نے بتایا کہ اس وقت ان کے پاس ایک کیس ایسا بھی ہے جس میں ایک شوہر کو اس کی بیوی نے بجلی کی تار سے پیٹا ہے۔۔انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے بے شمار کیسز سامنے آئے ہیں جن میں بیویوں نے شوہروں پر ہاتھ تو نہیں اٹھائے مگر روزانہ گالم گلوچ اور تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنایا ہے۔اس حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ بیشتر کیسز میں شوہر کی عمر بیوی سے زیادہ ہوتی ہے، جب وہ بوڑھا ہوتا ہے تو اس کی جوان بیوی گھریلو تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔بعض حالات ایسے بھی ہیں جن میں شوہر بڑھاپے کی وجہ سے یا کسی بیماری کی وجہ سے معذور ہوجاتا ہے تو اسے بیوی کی طرف سے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔باباجی فرماتے ہیں ہیں کہ اس رپورٹ سے ثابت یہ ہوا کہ کوئی بھی بوڑھا جوان بیوی سے شادی نہ کرے گا، ورنہ ”بزتی“ پکی اور پٹنا لازمی ہے فیر۔۔
ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں کہ۔۔ بیویاں آتی ہیں ہیر کی طرح،میٹھی ہوتی ہیں کھیر کی طرح،نمکین ہوتی ہیں پنیر کی طرح۔۔لیکن کچھ سال بعد۔۔چیرتی ہیں تیر کی طرح،کردیتی ہیں فقیر کی طرح،نظر رکھتی ہیں ”شبیر“ کی طرح۔۔اسی لئے پھر خاوند کے ہاتھ انجام کو پہنچتی ہیں۔۔بے نظیر کی طرح۔۔ہمارے یہاں عام طور پر سمجھاجاتا ہے کہ بیویاں مظلوم ہیں،ایسا نہیں ہے جناب، اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق شوہروں کی دھلائی میں مصری خواتین پہلے نمبر پر ہیں جبکہ برطانیہ اور بھارت کی خواتین اپنے شوہروں کی درگت بنانے میں دوسرے نمبر پر رہیں۔ سروے کے مطابق شوہروں پر بھی جوتوں،بیلنوں،ڈنڈوں اور بیلٹوں کا کہیں کہیں آزادانہ استعمال ہوتا ہے،سروے میں یہ بھی بتایا گیا کہ اگر خواتین کو شوہر پر تشدد کا موقع نہ ملے تو وہ انہیں برا بھلا کہہ کر اور گالیاں نکال کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتی ہیں۔۔۔
جاپان اور ہالینڈ میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ طویل عرصے تک ساتھ رہنے والے میاں بیوی کی صحت اور بیماریاں تک ایک دوسرے جیسی ہوجاتی ہیں۔اس تحقیق کیلیے ہالینڈ میں رہنے والے 28,265 جبکہ جاپان کے 5,391 جوڑوں کی صحت سے متعلق معلومات کا جائزہ لیا گیا جو کئی سال کے دوران جمع کی گئی تھیں۔آن لائن ریسرچ جرنل ”ایتھروکلیروسس“ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ طویل عرصہ ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے والے میاں بیوی نہ صرف اپنی عادتوں کے لحاظ سے ایک دوسرے جیسے ہوجاتے ہیں بلکہ ان کی جسمانی ہیئت، بلڈ پریشر اور بیماریاں بھی ایک دوسرے سے بہت ملنے جلنے لگتی ہیں۔اب تک یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صحت اور بیماریوں کے حوالے سے میاں بیوی صرف اسی وقت ایک جیسے ہوتے ہیں کہ جب وہ ایک دوسرے کے قریبی رشتہ دار ہوں۔تاہم نئی تحقیق سے بظاہر اس خیال کی نفی ہوتی ہے کیونکہ اس میں کئی جوڑے ایسے تھے جن میں شوہر اور بیوی کی ایک دوسرے سے دور پرے کی رشتہ داری بھی نہیں تھی لیکن لمبے عرصے تک ساتھ رہنے کے بعد ان کی بیماریاں اور صحت سے متعلق کیفیات میں خاصی مماثلت پیدا ہوگئی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شوہر اور بیوی (اپنی خوشی سے یا حالات کی مجبوری کے تحت) ایک دوسرے جیسی عادت اور مزاج اختیار کرلیتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ان کی ذہنی و جسمانی صحت سے تعلق رکھنے والی کیفیات تک آپس میں بہت ملنے لگتی ہیں۔اس تحقیق کا اصل نکتہ یہ ہے کہ بیوی اور شوہر کی زندگی ایک دوسرے کے ساتھ بے حد مضبوطی سے بندھی ہوتی ہے لہذا صحت بہتر بنانے سے متعلق کوششوں میں ان دونوں کا ایک ساتھ شریک ہونا ضروری ہے ورنہ صرف ایک کی سخت کوشش بھی شاید کوئی خاص فائدہ نہ پہنچا سکے۔
ایک تھانے میں فون آیا۔۔فلاں علاقے میں بیوی نے شوہر کو قتل کردیا ہے۔۔ بیوی آلہ قتل کے ہمراہ ابھی گھر میں ہی ہے۔۔ فوری پولیس بھیجو۔۔۔ فون سنتے ہی فوری طور پر پولیس موبائل کو جائے وقوعہ کیلئے روانہ کیا گیا۔۔ تین گھنٹے بعد ایس ایچ او کو خیال آیا ہے کہ۔۔ ایک قتل کی اطلاع پر پولیس موبائل کوروانہ کیا تھامگر اس کی جانب سے اب تک کوئی اپ ڈیٹ نہیں ملی۔۔ ایس ایچ او نے پولیس پارٹی کے انچارج کو فون کیا۔۔ہیلو۔۔۔ شیدے۔۔ آگے سے جواب ملا، جی سرجی، حکم۔۔ا یس ایچ او نے پوچھا، اوئے شیدے کیا رپورٹ ہے؟۔۔شیدے نے کہا۔سرجی، اطلاع درست تھی،ہم موقع پر پہنچ گئے تھے۔۔ تھانیدار نے پھر پوچھا۔۔اوئے شیدے۔۔ مگر بیوی نے اپنے شوہر کو قتل کیوں کیا؟شیدے نے جواب دیا۔۔سرجی، وہی بتارہا ہوں۔۔ بیوی بہت نفاست پسند ہے،اس نے کمرے میں فنائل کی ٹاکی ماری تھی۔۔ اور شوہر کو منع کیا تھا کہ گندے جوتوں سے کمرے میں نہ آنا۔۔شوہر بیچارے سے غلطی ہوگئی اور کمرے میں گندے جوتوں کے نشانات بن گئے۔۔ بس پھر کیا تھا۔۔ بیوی نے پسٹل سے دو فائر کئے جو سیدھے شوہر کے سرپرلگے اور وہ موقع پر ہی ٹھنڈا ہوگیا۔۔تھانیدار نے پورا وقوعہ سن کر کہا۔۔اوئے شیدے۔۔تو بیوی کو اب تک اریسٹ کیوں نہیں کیا؟آگے سے جواب آیا۔۔سرجی،وہ کچن میں ہے۔۔تھانیدار نے اس بار غصے سے کہا۔۔اوئے شیدے، پکڑتے کیوں نہیں اسے؟آگے سے بیچارگی کے عالم میں جواب آیا۔۔سرجی۔۔ فنائل کی ٹاکی جو لگی ہوئی ہے اس کے سوکھنے کا انتظار کررہے ہیں سرجی۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ وہ لوگ جنہوں نے سردی اور گرمی صرف کھڑکیوں میں سے دیکھی ہو اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو، وہ عام آدمی کی قیادت نہیں کرسکتے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔