لاہور :سانحہ ماڈل ٹاؤن کی گتھی چار سال بعد سلجھنے لگی۔ذرائع کا کہنا ہے سابق وزیرِ قانون پنجاب رانا ثنا اللہ سانحے کے ماسٹر مائنڈ تھے، اس وقت کے سیکرٹری داخلہ نے آپریشن کی مخالفت کی تھی۔
17 جون 2014ء کو پولیس نے ضلعی حکومت کے ساتھ مل کر ماڈل ٹاؤن میں آپریشن کا فیصلہ کیا، یہ آپریشن پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر قائم تجاوزات کے خلاف ہونا تھا لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن بن گیا۔آپریشن میں پولیس افسران نے ایک اعلیٰ شخصیت کے احکامات پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کی جگہ کو میدان جنگ بنا دیا گیا، پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان پر اندھا دھند گولیاں، لاٹھیاں، آنسو گیس کی شیلنگ اور اینٹیں چلائی گئیں۔
اس جارحیت کی اختتام پر 14 افراد جان سے گئے جبکہ 100 سے زائد زخمی حالت میں اسپتال پہنچے۔ پولیس نے اپنی نااہلی اور ناقص حکمت عملی کو چھپانے کے لیے پریس کانفرنس کی اور پاکستان عوامی تحریک کے قبضے سے اسلحہ ملنے کا دعویٰ کیا۔
پاکستان عوامی تحریک کے غم وغصے اور شدید عوامی درعمل پر پولیس نے ایک مقدمہ درج کیا اور ساتھ ہی جے آئی ٹی بنا ڈالی۔ ایف آئی آر میں خود کو مظلوم ثابت کنے کی کوشش کی گئی اور مقدمہ بھی اپنے ایک زخمی ایس ایچ او رضوان قادر کی مدعیت میں درج کیا۔ ساتھ ہی پی آئی ٹی کے جانب سے تھانہ فیصل ٹاؤن میں اندراج مقدمہ کی درخواست کر دی گئی۔
اس وقت کے ایس ایچ او شریف سندھو نے ٹال مٹول سے کام لیا لیکن عوامی تحریک کے کارکنان کی پریشر پر نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ سمیت دیگر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ادھر جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کسی حکومتی عہدیدار کی مداخلت کو رد کر دیا جبکہ واقعہ کو موقع کی مناسبت سے لیا گیا ایکشن بتایا۔ واقعے میں گرفتار ہونے والوں میں بھی انسپکٹر کے عہدے تک کے پولیس ملازمین شامل تھے، کسی اعلیٰ پولیس افسر کو گرفتار کیا گیا، نہ ہی کسی حکومتی عہدیدار کو پکڑ میں لایا گیا۔
دھرنے ہوئے، احتجاج ہوئے لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور مقتولین کے ورثا کو انصاف نہ مل سکا۔ بالاخر اب کفر ٹوٹتا دکھائی دیا جب پولیس ذرائع کے مطابق ایم این اے رانا ثنا اللہ کےخلاف تحقیقات ہونے لگی ہیں اور یہ بات سامنے آئی ہے کہ رانا ثنا اللہ اس سانحے کے ماسٹر مائنڈ تھے، انہوں نے ہی سیکریٹری داخلہ کی مخالفت کے باوجودآپریشن کرنے کے احکامات دیئے۔
اس وقت کے ہوم سیکرٹری اعظم سلیمان نے خدشہ ظاہر کیا کہ خون خرابہ ہو سکتا ہے لیکن احکامات ملے کے آپریشن مکمل کیا جائے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پولیس افسران اس بات کو ثابت کریں گے کہ ان کا کوئی قصور نہیں تھا جیسے احکامات اعلیٰ افسران سے ملے، اس کے مطابق کارروائی کی گئی۔