لاہور: صوبائی دارالحکومت لاہور میں اسموگ کی شدت میں اضافے کے ساتھ فضائی آلودگی سنگین صورتحال اختیار کرگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق ہفتہ اور اتوار کے روز لاہور کا ایئر کوالٹی انڈکس 1800 تک پہنچ گیا، جس کے باعث لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست رہا۔
پنجاب حکومت ایک جانب فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، مگر دوسری طرف ادارہ تحفظ ماحولیات کے پاس لاہور میں ایئر کوالٹی کی درست مانیٹرنگ کے لیے خاطر خواہ وسائل موجود نہیں ہیں۔ ادارہ تحفظ ماحولیات کے پاس لاہور میں ایئر کوالٹی مانیٹرنگ کے لیے صرف تین مانیٹر موجود ہیں جن میں یو ایس قونصلیٹ، پنجاب یونیورسٹی اور ٹاؤن ہال لاہور کے مانیٹر شامل ہیں، جبکہ شہر میں نجی اداروں کے 14 ایئر کوالٹی مانیٹر بھی نصب ہیں۔
بیشتر نجی ایئر کوالٹی مانیٹرز سرکاری لیب سے تصدیق شدہ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی تنصیب معیاری طریقہ کار کے مطابق کی گئی ہے، جس کے باعث حاصل کردہ ڈیٹا میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ادارہ تحفظ ماحولیات کی موبائل وین بھی خراب ہے، جبکہ دفتر میں نصب ایئر کوالٹی مانیٹر کا ڈیٹا عوام کے ساتھ شیئر نہیں کیا جا رہا۔
ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل عمران حامد شیخ نے اس صورتحال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں صرف تین ایئر کوالٹی مانیٹرز موجود ہیں، تاہم مزید پانچ مانیٹرز نصب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجی اداروں کے مانیٹرز کی اکثریت درست ڈیٹا فراہم نہیں کر رہی، جس پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو ان مانیٹرز کے معیار اور تنصیب کی جگہوں کا جائزہ لے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی اور اسموگ پر قابو پانے کے لیے درست اور قابل اعتماد ڈیٹا کا حصول ناگزیر ہے، تاہم موجودہ حالات میں ادارہ تحفظ ماحولیات ناقابل اعتماد ڈیٹا کی بنیاد پر اقدامات کر رہا ہے، جس کے باعث فضائی آلودگی کی صورتحال میں بہتری کی بجائے مزید خرابی کا خدشہ ہے۔