اسلام آباد : سپریم کورٹ نے 90 دن میں انتخابات کرانے کے کیس میں اپنے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ عدم اعتماد کے موقع پر عمران خان کا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ انہوں نے اسمبلی تحلیل کرکے آئینی بحران پیدا کیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 90 دن میں انتخابات کے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت عام انتخابات سے متعلق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی دستخط شدہ دستاویز سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئی۔ صدر ہاؤس کے گریڈ 22 کے افسر کے دستخطوں سے جواب جمع کروایا گیا۔
صدر مملکت کی جانب سے 8فروری کو انتخابات کی تاریخ دینے پر رضا مندی ظاہر کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے 8فروری کو انتخابات کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں پیش کیا جبکہ اٹارنی جنرل نے انتخابات سے متعلق نوٹیفکیشن کی کاپی سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔
بعدازاں چیف جسٹس نے حکم نامہ لکھوایا جس میں کہا گیا ہے کہ دونومبر 2023 کی ملاقات کے بعد انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کیا گیا۔کسی نے بھی آئینی شق کا حوالہ نہیں دیا۔ اس نقطے پر بحث پھر کبھی کریں گے۔ قومی اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر 9 اگست کو تحلیل ہوئی۔
نجی ٹی وی کے مطابق حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم نہ صرف آئین پر عمل کریں بلکہ ملکی آئینی تاریخ کو دیکھیں ۔ آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ عدالتوں کو ایسے معاملات کا جلد فیصلہ کرنا پڑے گا ۔قومی اسمبلی اس وقت تحلیل ہوئی جب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد آئی۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیراعظم (عمران خان) کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا ۔ اس وقت کے وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کر کے آئینی بحران پیدا کر دیا۔ ہم نے صدر کی ایڈوائس کے بغیر پی ٹی آئی حکومت میں قومی اسمبلی تحلیل کرنے پر از خود نوٹس لیا۔
حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلہ کیا کہ پی ٹی آئی دور میں قومی اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ غیر آئینی تھا۔ اس وقت کے وزیر اغظم اور صدر مملکت نے جو کیا وہ ان کے اختیار میں نہیں تھا۔ اس فیصلے میں دو ججز نے صدر مملکت کے نتائج پر بات کی۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلہ میں کہا گیا کہ عوامی منتخب نمائندوں کو عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔ صدر نے خط میں لکھا کہ الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں سے مشاورت کر کے تاریخ کا اعلان کرے۔ صدر کے اس خط پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ سپریم کورٹ کا تاریخ دینے کے معاملے پر کوئی کردار نہیں۔
حکم نامے کے مطابق صدر مملکت ملک کا اعلی عہدہ ہے۔ حیرت ہے کہ صدر مملکت اس نتیجے پر کیسے پہنچے۔ تاریخ دینے کا معاملہ سپریم کورٹ یا کسی اور عدالت کا نہیں۔ صدر مملکت کو اگر رائے چاہیے تھی تو 186آرٹیکل کے تحت رائے لے سکتے تھے۔ ہر آئینی آفس رکھنے والا اور آئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن اور صدر آئین کے پابند ہیں۔
حکم نامے کے مطابق آئین کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں۔ آئین پر علمداری اختیاری نہیں بلکہ لازم ہے ۔ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے غیر ضروری طور پر معاملہ سپریم کورٹ آیا۔ سپریم کورٹ آگاہ ہے ہم صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر پورا ملک تشویش کا شکار ہوا۔
حکم نامے کے مطابق یہ باتیں کی گئیں کہ ملک میں انتخابات کبھی نہیں ہوں گے۔ یہ آئین کی سکیم ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ صرف سہولت کار کے طور پر صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان مشاورت کا کہہ سکتی ہے۔ یہ عدالت صرف یہ کہہ سکتی ہے کہ ہر ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ صدر مملکت یا الیکشن کمیشن دونوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابات کے سازگار ماحول پر بہتری ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ یہ ذمہ داری اُن پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے یہ حلف اُٹھا رکھا ہے۔ حادثاتی طور پر پاکستان کی تاریخ میں پندرہ سال آئینی عملداری کا سوال آیا۔ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان ملاقات کرانے کے لیے اٹارنی جنرل نے کردار ادا کیا اور معاملہ حل ہو گیا۔
حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے صدر مملکت کے سیکرٹری کا خط عدالت میں پیش کیا صدر مملکت کے خط میں کہا گیا کہ عام انتخابات 8 فروری کو ہوں گے۔الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن شیڈول جاری کرے گا۔ الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرے تاکہ لوگوں کو پتہ تو چلے۔