روایتی ہتھیاروں سے کوئی عرب ملک جوہری طاقت اسرائیل کا مقابلہ نہیں کر سکتا ویسے بھی قیادت سے نفرت یا جمہوریت کی بحالی کی تحریکوں کی وجہ سے کئی عرب ممالک عدمِ استحکام کا شکار ہیں اِس لیے مقابلے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا کیا کوئی عرب ملک اسرائیلی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب بھی ہاں میں دینا اِس لیے ممکن نہیں کیونکہ زیادہ تر عرب ممالک کے حکمران اقتدار برقرار رکھنے کے لیے اپنی ہی عوام سے برسرِ پیکار ہیں اِس لیے بیرونی خطرات کا سامنا کرنے یا کسی کے لیے خطرہ بننے کی پوزیشن میں نہیں البتہ اپنی عوام کے لیے خطرہ ضرور ہیں مصر،لیبیا اور شام کے حالات اِس بات کی تائید کرتے ہیں مصراور اردن وغیرہ تو اسرائیل سے دوستانہ مراسم اُستوار کر چکے مزید کئی ممالک اسی روش پر گامزن ہیں جبکہ بقیہ ممالک حالات کا جائزہ لیکر قدم بڑھانے کو تیار ہیں لبنان کا تذکرہ اِس لیے غیر ضروری ہے کہ وہ اپنے دفاع سے قاصراورمکمل طور پر صیہونی ریاست کے رحم و کرم پرہے اِس لیے اسرائیلی سالمیت کو بظاہر کسی طرف سے بیرونی خطرہ لاحق نہیں بلکہ اقتدار میں رہنے اور اپنے ملک کو درپیش خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے عرب ممالک اب اسرائیل کو خطرہ نہیں قابلِ اعتبارمحسوس ہوکرتے ہیں۔
موجودہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نفتالی ایک سابق فوجی ہیں اور اپنے ملک کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے لیے کوشاں ہیں حال ہی میں انہوں نے امریکہ سے جدید ہتھیاروں کے حصول کے لیے اربوں ڈالرکے مزیداہم نوعیت کے معاہدے کیے ہیں حالانکہ دنیا کے اسی فیصد ڈرون تیار کرنے کے علاوہ اسرائیل کے پاس جدید ترین ٹینک، میزائل اورہر قسم کی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے ساتھ پلٹ کر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی فضائیہ ہے پھر کیوں بھاری رقوم دفاع پر خرچ کر رہا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ بیرونی خطرات سے بے نیاز ہو کروہ اب مستقبل کے کردار کو بہتر بنانے کی تیاریوں میں ہے کیونکہ اب صیہونی ریاست عالمی تنہائی کا شکار نہیں بلکہ دنیا بھر کے بڑے مالیاتی اِداروں اورہتھیار ساز کمپنیوں کا مرکز ہے جدیدزرعی ٹیکنالوجی کی بدولت بڑے صحرائی حصے کو نخلستان میں تبدیل کر چکاہے کُل آبادی فوجی تربیت رکھتی ہے اِس لیے کسی بیرونی خطرے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ اسرائیلی حدود کے متعلق اُس کے عزائم کیا ہیں؟ کا جواب اسرائیلی پارلیمنٹ کے پیشانی پر واضح درج ہے اسی لیے عین ممکن ہے اسرائیل ایک بڑی اور فیصلہ کُن جنگ کی تیاری میں مصروف ہوحالیہ تیاریوں سے اِن خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ عربوں کے پُرجوش حمایتی پاکستان کو مصروف کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔
رواں ہفتے کے آغاز سے اسرائیل اور بھارت تاریخ کی سب سے بڑی فضائی مشقیں شروع کرچکے ہیں اِن مشقوں میں بحرین اور مراکش بھی شامل ہیں مگر اسرائیل کے ساتھ بھارت کی شراکت داری خاصی معنی خیز ہے نئی نئی دوستی کے نشے میں سرشار متحدہ عرب امارات کی فضائیہ کے سربراہ
ابراہیم نصیرمحمد العلوی بھی مشقوں کا معائنہ کرنے اسرائیل پہنچ گئے ہیں مشقوں کے بارے بات کرتے ہوئے اسرائیلی فضائیہ کے چیف امیر لازار نے ایسی خبروں کی نفی کی ہے کہ مشقوں کا ہدف ایران ہے انہوں نے مستقبل میں متحدہ عرب امارات کی فضائیہ کی میزبانی کا بھی عندیہ دیا عیاں حقیقت ہے کہ اسرائیل اور ایران کے ٹکراؤ کے امکانات بہت کم ہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایران ایک طاقتور فوج رکھتا ہے جو ڈرون طیاروں کی اچھی بھلی تعداد سے لیس ہے مزید یہ کہ اسرائیلی حملے کی صورت میں اُس کی پراکسی کا خوف ہے یمن میں حوثیوں اور شام میں بشارالاسد کی صورت میں وہ مخالفوں کو سزا دینے کا شاندار مظاہرہ کر چکا ہے اِس لیے اسرائیل کبھی نہیں چاہے گا کہ اُس کے لیے بھی ایسے حالات بن جائیں نیز ایران کو اِس حد تک کمزور کر نا کہ عرب ممالک بالکل ہی بے نیاز ہوجائیں یہ بھی اُس کے مفادات کے منافی ہے اسرائیل نے اگر ایران پر حملہ کرنا ہوتا تو بہترین وقت جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا موقع تھا ایران کی طرف سے امریکی اڈوں کومیزائلوں سے نشانہ بنانے کا بہانہ بنا کر باآسانی سبق سکھایا جا سکتا تھا مگر نہ صرف امریکہ نے کارروائی کے بجائے ایرانی حملے کو نظرانداز کرتے ہوئے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا بلکہ اسرائیل نے بھی طاقت دکھانے کی کوشش نہ کی جس سے ایسے خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ عربوں کو دباؤ میں رکھنے اورمسلم امہ میں تفرقہ بڑھانے کے لیے ایرانی خطرے کا موجود رہنا امریکہ و اسرائیل کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے ایران کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل سے دوستی کی لہر نے جنم لیا ہے اگر ایرانی خطرے کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو عرب ممالک کے لیے واحد خطرہ اسرائیل رہ جائے گا اور ایسا ہو یہ اسرائیل کبھی نہیں چاہے گاایک اور بات مشقوں میں بھارت کی شرکت یہ ثابت کرتی ہے کہ ایران ہر گز مرکزِ نگاہ نہیں کیونکہ ایران اور بھارت دونوں کے ایک دوسرے پر کافی احسانات ہیں البتہ پاکستان تک خطرے کی وسعت مبالغہ آمیزی نہیں کہہ سکتے۔
متوقع مشقوں کے بارے فوجی حکام بظاہر یہی کہتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے اِس وقت بھی سب سے بڑا خطرہ ایران ہے اور فوجی مشقوں کی منصوبہ بندی میں بڑی حد تک توجہ کا مرکز بھی اُسے ہی بنایا گیا ہے مگر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ایران اور عرب ممالک کے زمینی حالات میں بڑی حد تک مماثلت ہے اور یہ مماثلت تیل کی پیداوار تک وسیع ہے اِس لیے فوجی حکام بھلے جو مرضی کہہ کر اطمنان دلانے کی کوشش کریں فضائی مشقوں کا اصل مقصد عرب ممالک کو مرعوب کرناہے متحدہ عرب امارات کی فضائیہ کے سربراہ کی موجودگی سے یہ مقصد باآسانی پورا ہو جائے گا حالانکہ متحدہ عرب امارات کے طیارے مشقوں میں حصہ لینے نہیں آئے مگر فضائیہ کے چیف کی طرف سے مشقوں کے معائنے کی غرض سے آنا بہت اہمیت کا حامل ہے اِس شرکت سے یہ بھی وضاحت ہو جاتی ہے کہ اسرائیل کو متحدہ امارات یا دیگر عرب ممالک اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتے۔
بلیو فلیگ نامی جنگی مشقیں اسرائیل 2013 سے ہر دوبرس کے وقفے سے صحرا میں منعقد کر رہا ہے جس میں جدید ترین جنگی طیارے استعمال کیے جاتے ہیں اورنشانہ بازی سے لیکر زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلانے کی تکنیک کوبہتربنایا جاتا ہے ماضی قریب میں فلسطین کے خلاف نشانہ بازی اور تباہی پھیلانے کی تکنیک کا خوب مظاہر ہ کیا گیا جس کے دوران سیکڑوں افراد بے گھر ہوئے اب بھی ستر سے زائد میراج 2000،رافیل اور ایف سولہ طیارے جنگی مشقوں کا حصہ ہیں جن میں پندرہ سو سے زائد اہلکار شریک ہیں یہ تعداد کافی غیر معمولی ہے اور اِس سے صلاحیتوں کو جانچنے سے زیادہ حملہ کرنے کی قوت میں اضافے کا پیغام ملتا ہے بھارت کی شرکت سے خطرات کا رُخ پاکستان تک وسیع ہونے کا خدشہ کسی صورت رَد نہیں کیا جا سکتا وجہ یہ ہے کہ مشقوں کے علاقے کی جیسی زمین ہے ویسی ہی راجھستان اور سندھ وجنوبی پنجاب میں ہے اِس لیے پاکستان کو مشقوں کے اہداف پر کڑی نظر رکھنے کے ساتھ مناسب حکمتِ عملی سے توڑ کرنے اور جارحیت کا دندان شکن جواب دینے کے منصوبے پر توجہ دینی چاہیے اسرائیلی کمانڈوز کشمیر میں آچکے فضائی مشقوں میں بھارت کی شرکت خالی ازعلت نہیں ہو سکتی گزشتہ ایک دہائی سے بھارت کا اسرائیلی ہتھیاروں پر انحصار بڑھنے لگا ہے اِس بڑھتے دفاعی تعاون پرعسکری قیادت کوکڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔