یہ اُس وقت کے دیہات کی بات ہے جب دیہی زندگی آج کل کے شوریدہ زمانے میں ایک افسانوی کہانی محسوس ہوتی ہے۔ اُس وقت دیہی معاشرہ سکون، محبت، معمولی لڑائی جھگڑوں، صلح صفائی اور احترام وغیرہ کے لٹریری کردار کی طرح تھا۔ ٹھیک اُس وقت کے دیہاتوں میں ایک بات مشہور تھی کہ جب زور کی آندھی آنے کا امکان ہوتا تو پیر بزرگ اُس آندھی کو اپنی دعا سے روک دیتا۔ پیر بزرگ کے آندھی روکنے کے اِس عمل کو دیہی زبان میں ”آندھی کو باندھ دینا“ کہا جاتا تھا۔ آندھی بندھنے کے بعد شدید طوفان تو نہ آتا لیکن ہرطرف گردوغبار چھایا رہتا۔ اُس وقت کے غیرسائنسی دیہاتیوں کو خود یہ جاننے کا تجسس نہ ہوتا کہ اِس گردوغبار کے پیچھے کتنا بڑا طوفان موجود ہے۔ وہ صرف پیر بزرگ کی کرامت پر ہی اکتفا کرتے۔ البتہ اگر کبھی گردوغبار کے بعد شدید طوفان آتا تو دیہی لوگ کہتے کہ جس عمل سے آندھی کو باندھا گیا تھا وہ ٹوٹ گیا ہے۔ ہماری اِن دنوں کی سیاست بازی کو اُس وقت کی آندھی باندھنے کے منظر سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں 30اکتوبر 2011ء سے لے کر جولائی 2018ء کے انتخابات میں جیت تک جو غیرفطری اور ناممکن دعوے کیے وہ پاکستان میں موجود تمام سیاسی، معاشی اور معاشرتی برائیوں کے لیے طوفان عظیم کی آمد کا اعلان تھے۔ عمران خان نے لوگوں کی معاشی کسمپرسی کو ایکسپولائٹ کرتے ہوئے سپرسونک دعوے کیے کہ اُن کی حکومت بنتے ہی پاکستان کی معیشت دنیا کے خوشحال ممالک کے مقابلے میں آجائے گی، پاکستان قرض لینے کے بجائے دوسرے ممالک کو قرض دے گا، پاکستانی بیرون ملک روزگار تلاش کرنے کے بجائے پاکستان میں ہی خوشحالی کی بلندیوں کو چھوئیں گے اور دنیا بھر
سے لوگ پاکستان میں روزگار کے لیے آنا شروع ہو جائیں گے۔ تحریک انصاف سے بامراد لوگ اپنی سیاسی تقریروں میں سینے کی پوری طاقت لگا کر گرجتے رہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت بنتے ہی اگلے روز لوٹی ہوئی 300 ارب کی رقم پاکستان واپس لے آئیں گے۔ عمران خان نے آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے پاس جا کر قرضہ مانگنے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک کے سامنے بھی جاکر بھیک مانگنا اُن کے لیے باعث شرم ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف نے اِن غیرفطری اور ناممکن سپرسونک دعوؤں کے ذریعے پاکستانی سیاست میں دو تاثر بنانے کی کوشش کی۔ پہلا یہ کہ عمران خان جیسا مافوق الفطرت اور جادوئی کرامات سے بھرپور لیڈر پہلے کبھی نہیں آیا۔ عمران خان اپنی بڑائی اور ایمانداری کے مقابلے میں قائداعظم کے علاوہ کسی کو خاطر میں نہیں لارہے تھے۔ ہوسکتا ہے جناح کا نام بھی انہوں نے شاید تکلفاً ہی استعمال کیا ہوگا۔ دوسرا تاثر یہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ اُن سے پہلے کے سیاسی رہنماؤں نے ہمیشہ پاکستانی عوام کو ذلت کی زندگی ہی دی ہے، اب تحریک انصاف کی حکومت عوام کی بے عزت انا کو عزت دار خودداری دے گی۔ ان دونوں تاثرات کی کئی برس تک ہرممکن آب یاری کی گئی۔ اتنی محنت اور منصوبہ بندی کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ تحریک انصاف 2018ء کے انتخابات میں ”دودھوں نہاتی اور پوتوں پھلتی“ لیکن عمران خان کو حکومت بنانے کے لیے بمشکل اکثریت ملی۔ پاکستان کی گزشتہ برسوں کی سیاست کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ ایک حکومت کو گھر بھیجنے کے بعد دوسری حکومت لانے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا تھا لیکن عمران خان کو سپرسونک لیڈر بناکر تحریک انصاف کو بمشکل حکومت کرانے کا کیا مقصد تھا؟ اس بات کا جواب ہی اصل سوال ہے۔ نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی حکومت کو جس طرح نکالا گیا اور ذلت کا نشان بنایا گیا اُس کی وجہ کیا صرف اناپسندی تھی یا جس طرح پاکستان کی سابقہ ہسٹری میں جس لیڈر نے بھی اپنا رخ چین اور روس کی طرف کیا اُسے عبرت کا نشان بنا دیا گیا، کیا ویسے ہی نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو سبق سکھایا گیا؟ عمران خان اور تحریک انصاف کی صورت میں جو اپوزیشنی طوفان امڈ رہا تھا اُس کی عملی شدت اب کہیں محسوس نہیں ہوتی۔ لگتا ہے اُس آندھی کو کسی پیربزرگ نے باندھ دیا ہے اور اب ہرطرف گردوغبار ہی اڑ رہا ہے۔ تحریک انصاف کی پوری مالیاتی ٹیم آئی ایم ایف کے ملازمین پر مبنی ہے لیکن کسی نے خودکشی نہیں کی۔ بچی کھچی اہم عہدوں کی ٹیم ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہے لیکن جمہوری پارلیمنٹ کا جھنڈا پھربھی بلند ہے۔ سعودی عرب سے لے کر چین تک ہر طرح کے قرضے مانگے جارہے ہیں لیکن بھیک پر شرمندہ ہونے والے شرمندہ نہیں ہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی کی شرح آپے سے باہر ہو رہی ہے۔ وزراء کے مضحکہ خیز بیانات انٹرنیشنل میڈیا میں پاکستانی سیاست کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کسی بھی معمولی سی عملی منصوبہ بندی کے بجائے صرف فینٹسی کے ذریعے حکومت چلا رہی ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن سوال تو پھر وہی ہے کہ تحریک انصاف کو حکومت میں کیوں لایا گیا؟ نواز شریف کی انا کو توڑنے یا چین اور روس کی طرف سوچنے پر سبق سکھانے جیسی وجوہات زیادہ منطقی نہیں لگتیں۔ ہوسکتا ہے کچھ ایسی وجوہات ہوں جو ابھی تک عام لوگوں کے سامنے نہ آئی ہوں اور جنہیں پرانے دیہاتوں میں آنے والی آندھی کو باندھنے کی طرح باندھ دیا گیا ہو لیکن ڈر یہ ہے کہ اگر پیر بزرگ کا آندھی باندھنے والا عمل ٹوٹ گیا تو خوفناک طوفان سے ہونے والے نقصان کو تاریخ پاکستانی سیاست کی ایک اور بڑی بدقسمتی لکھے گی۔