اسلام آباد:وفاقی حکومت نے 'واٹر ایمرجنسی' کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس سلسلے میں موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو پانی کی قلت کا بحران ملک کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ میاں شہباز شریف، سید مراد علی شاہ، پرویز خٹک اور عبدالقدوس بزنجو نے بدھ کے روز اسلام آباد میں مشاورت کے بعد ’پاکستان واٹر چارٹر‘ پر اتفاق کیا ہے جس پر وفاق اور صوبوں کے پانچوں نمائندوں کے دستخط موجود ہیں۔
اس چارٹر میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی آزادی کے وقت فی کس پانی کی دستیابی 5200 مکعب میٹر سالانہ تھی جو کم ہو کر اب ایک ہزار مکعب میٹر سالانہ تک پہنچ چکی ہے جس سے سرکاری طور پر پاکستان پانی کی قلت والے ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔
اس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ 1950 سے لے کر 1990 تک کی تین دہائیوں میں انڈس ریور سسٹم سے قابل ذکر پانی حاصل کیا گیا۔ اس وجہ سے پاکستان خوراک میں خودکفیل ہو گیا لیکن ماضی میں جو کوششیں کی گئیں وہ خطرے سے دوچار ہیں۔
اس چارٹر میں دعویٰٰ کیا گیا ہے کہ ماہرین کے مطابق پاکستان موسمی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے ممالک میں شامل ہے اگر گلیشیئر کے پگھلنے میں 40 فیصد اضافہ ہوا تو آنے والے دنوں میں ہم شدید سیلابوں کا سامنا کریں گے، جس سے دریاؤں کے سالانہ بہاؤ میں کمی آئے گی۔ یہ تمام عوامل سے بارشوں کی طرز میں تبدیلی ہو گی جس سے زراعت اور غدائی ضروریات کا نظام تباہ ہو جائے گا۔
چارٹر میں بتایا گیا ہے کہ آبادی میں اضافے شہروں کی طرف نقل مکانی کی وجہ سے تازہ پانی کی طلب اور فراہمی میں فقدان پیدا ہو رہا ہے۔ چاروں صوبوں اور وفاق نے زراعت کے پائیدار اور متبادل ذرائع اختیار کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
وزیر اعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ نے اتفاق کیا ہے کہ انڈس ریور سسٹم میں شامل کرنے کے لیے مزید پانی دستیاب نہیں، لہٰذا پاکستان کو پانی کے مزید ذخائر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مون سون میں پانی سمندر میں جا کر ضائع نہ ہو لیکن اس حوالے سے سمندری کی سطح بلند ہونے اور ماحولیاتی نظام کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
پاکستان واٹر چارٹر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد بیماریوں کی وجہ آلودہ پانی ہے۔ اس دستاویز کے مطابق ان بیماریوں کی وجہ سے کروڑوں روپے کے اخراجات آتے ہیں۔