قصہ یوں ہے کہ عالمی سیٹھوں کے نام نہاد ادارے یونیسکو نے سات نومبر انیس سو اکیانوے کو عالمی یوم صحافت منانے کی اجازت دی اور یار لوگوں نے انیس سو ترانوے سے اس دن کو دھوم دھڑکے سے منانا شروع کر دیا۔
ہر شعبہ میں ایک عدد بھولا ہوتا ہے لیکن اس شعبہ میں بھولا نہیں بھولوں کی ایک کثیر تعداد دکھائی دیتی ہے
تبھی تو گزشتہ سال میں سو کے قریب صحافیوں نے جام ِ شہادت نوش کیا اور دور دور تک کوئی اتہ پتہ نہیں کہ یہ عوامی مجاہد مرے تو کس کے لئیے مرے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی یوم ِ صحافت کو پاکستان بھر میں اتنے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے کہ بیچارا جوش بجھ کر رہ گیا ہے ۔
ارے میاں میری باتوں کو دل پہ نہ لیجیے۔ گستاخی معاف خاکسار کی اتنی جرات کہاں کہ اپنی برادری کے خلاف کچھ بول سکے۔ حالانکہ فیض جی نے پتہ نہیں کیوں کہہ دیا تھا ۔ بول کہ لب آزاد ہیں ترے
ہمارا شمار بھی بھولوں میں ہوتا ہے۔سکرین پہ آتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم ارب پتی ہیں۔ بھیا ارب پتی کا تو نہیں پتا البتہ ہم پتی ضرور ہوتے ہیں اوہ اس لئیے ہم نے بھی ذرا سچ بولنے کا بیڑا اٹھایا اور ایک ناول لکھ مارااینکر جس کا نام ہے۔
بھولے بھالے صحافی بھائیو!
اس ناول میں ہم نے آپ کی بات کی ہے اور جب ہم نے موجودہ صحافتی منظر نامے کی بات کر نا شروع کی تو معلوم یہ ہو ا کہ پاکستانی میڈیا کی مثال اس بیج کی سی ہے جو آندھیوں میں اڑتا ہوا کسی زرخیز زمین میں جا گرتا ہے اور موسموں کی مہربانی سے اگتا چگتا، تناور درخت کی شکل اختیا ر کر لیتا ہے۔ درخت بھی وہ جس کی کاٹ چھانٹ نہیں ہوئی۔ اس لئیے اسے علم ہی نہیں کہ اس کی شاخوں کا پھیلاو کہاں تک ہے۔ اس کی جڑیں کتنی گہری ہیں اور اس کی چھاوں میں کون کون آ کر بیٹھتا ہے۔
بس یہ لکھنا تھا کہ حکومت اور صحافتی اداروں کی کشمکش کا ایک نیا باب ہم پر وا ہوا اور یہ پتہ چلا کہ بھلے صحافت کو اب ریاست کا اہم ستون قرار دیا جائے۔ اب بھی صحافی کا خون اور پسینہ دونوں کا کوئی مول نہیں۔ اپنی جانوں پر کھیل کر خطرناک کوریجز کرنے والے صحافی سڑکوں پہ رلتے رہتے ہیں لیکن چند نام نہاد ملکی اور ملکی عالمی صحافی تنظیموں کے سربراہان تما م فوائد سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
یہ آزادی صحافت وغیرہ اچھی چیز ہے لیکن ہمارے معدہ اب اچھے کھانوں کو ہضم نہیں کرتے فوراً الٹی ہو جاتی ہے اس لئیے ایسی باتیں نہ ہونا ہمارے لئیے فائدہ مندہے ۔
آندھی ہو یا طوفان۔ چلچلاتی دھوپ ہو یا برف باری۔ تنخواہ ملی ہو یا نہ ملی ہو۔ کوئی دفتری سہولت ملے نہ ملے۔ ہم ناشتہ کئیے بغیر اور دن کے کھانے کو ایمانداری سے کھائے بغیر کام پہ توجہ کی خاطر گھر سے نکل آتے ہیں اور جب ایک گمنام گولی یہ دھماکے میں ہم مر جاتے ہیں تو ہمارا ادارہ ہی ہماری ایف آئی آر نہیں کٹواتا ۔ لہٰذا ایسی باتیں ہمارے ساتھ نہ ہی کی جائیں تو بہتر ہیں۔
نوٹ:بلاگ لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں