اسلام آباد : سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 94 کا اطلاق صرف ان افراد پر ہوگا جو آرمی ایکٹ کے تحت ہیں۔ اس کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے کی ہے۔
سماعت کے دوران، سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ اصل مسئلہ ملزمان کی ملٹری ٹرائل کے لئے حوالگی ہے، اور اس پر لامحدود اختیار کے بارے میں سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کا اختیار بھی لامحدود نہیں ہوتا، لیکن کمانڈنگ افسر کو ملزمان کی حوالگی کے لیے لامحدود اختیار دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملزمان کی ملٹری حوالگی کا فیصلہ کرنے والے افسر کا اختیار بہت وسیع ہے اور اس پر سوال اٹھایا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا پولیس کی تفتیش کم اور ملٹری کی تیز تھی؟ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مسئلہ مواد کا نہیں، بلکہ ملزمان کی حوالگی کے اختیارات کا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا انسداد دہشتگردی عدالت ملزمان کی حوالگی کی درخواست مسترد کر سکتی ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت کو ایسا اختیار حاصل ہے۔
اس کے بعد، فیصل صدیقی نے کہا کہ کورٹ مارشل کا فیصلہ ملزمان کی حوالگی سے پہلے ہونا چاہیے تھا، اگر ایسا نہیں ہوا تو ملزمان کی حوالگی کس طرح کی جا سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت شکایت کے اندراج کا طریقہ ضابطہ فوجداری میں واضح ہے، اور یہ شکایت مجسٹریٹ کے ذریعے ریکارڈ کرائی جاتی ہے۔
مقدمے کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی ہے، اور سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔