سرکاری بادشاہت

سرکاری بادشاہت

ضیاء محی الدین مرحوم نے ابن انشاء کی پیروڈی کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کے ارباب اختیار کو کسی نے بتایا کہ سینماءوں میں اخلاق سوز فل میں دکھائی جاتی ہیں ، انتظامیہ نے پکڑ دھکڑ شروع کی تو سنیماء مالکان نے عدلیہ سے رجوع کیا، ایک کیس میں باریش تھانیدار کو دیکھ کر کہا کہ آپ تو حاجی لگتے ہیں ، ان کا جواب ہاں میں تھا، معزز جج نے کہا کہ پھر آپ تھانیدار کیسے بھرتی ہوئے،اس نے کہا تھانیدا ر ہو کر ہی تو میں نے حج کیا،ورنہ میرے پاس وسائل کہاں تھے ۔

ہمارے ہاں بھی چند نیک کام خفیہ وسائل سے کیے جاتے ہیں ، گذشتہ دنوں وزیر دفاع نے اسمبلی کے فلور پرتوجہ دلاتے اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے حوالہ سے کہا ایک بیورو کریٹ کی بیٹی پر جو سلامی جمع ہوئی اس کی مالیت کئی ارب روپے تھی،جو مہمانوں نے’’ بڑے صاحب‘‘ کی محبت میں ’’نیک دختر‘‘ کو اسکی شادی کے موقع پر دی، کچھ اخبارات نے اس کا کھوج بھی لگا لیا اور دعویٰ کیا کہ موصوف کپتان کے عہد حکومت میں وسیم اکرم پلس کے پرسنل سیکرٹری رہ چکے ہیں ۔ سلامی کی وساطت سے یکر طرفہ محبت کا کس کس کو فائدہ ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتلائے گا، لیکن اس سے کم از کم ان ملازمین کے علم میں اضافہ ضرور ہوا ہوگا جو کرپشن کرنے لئے ’’محفوظ راستہ‘‘ کی تلاش میں رہتے ہیں ۔

پارلیمنٹ کے فلور پر وزیر دفاع کے بیان کے بعد نجانے نیب ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے اس کا عوام کو شدت سے انتظار رہے گا،البتہ اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں ہے کہ ہرقومی ادارہ زوال پذیر ہے، نت نئے مالی، اخلاقی سکینڈل اسکی شہادت بھی دیتے ہیں انکی کارکردگی سے ان کا عکس بھی عیاں ہے ۔

ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی کو سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے تقابلی جائزہ کی روشنی میں بتایا کہ تعلیم کا معیار گر رہاہے، سی ایس ایس امتحان پاس کرنے کی شرح گر رہی ہے جو اب دو فیصد سے بھی کم ہے، اس لئے امتحان کے لئے عمر کی بالائی حد میں اضافہ لازم ہے، جس کی منظوری بھی دی جا چکی ہے، اس کا مقصد میرٹ پر رہتے ہوئے امیدواروں کی کا میابی کا تناسب بڑھانا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ 1995سے قبل یہ شرح دس فیصد تھی ۔ سینئر بیورو کریٹس تسلیم کرتے ہیں کہ کہ پچاس کی دہائی تک سول سروسز کا شعبہ مثالی اور فعال ادارہ رہا ہے، موجودہ معیار باعث تشویش ہے اگر یہی حال رہا تو انتظامی شعبہ بہت کمزور پڑ جائے گا، کرپشن اور اقرباء پروری مزید بڑھے گی، یہ ادارہ

ریاست کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔

افسر شاہی ہمیشہ زیر تنقید رہی ہے،اجمل نیازی مرحوم اسے’’ برُا کریسی‘‘ کے نام سے بھی یاد کرتے تھے، عوامی سطح پر یہ سوال بھی زیر گردش ہے کہ ٹیلی فون، مواصلات، ٹرانسپورٹ، ترسیلات، زراعت و دیگرشعبہ جات کی جو کارکردگی پرائیویٹ سیکٹر میں ملتی ہے وہ سرکار کی زیر نگرانی کہیں دکھائی نہیں دیتی،ایک وجہ تو سرخ فیتہ سامراجی عہد سے پختہ ہے وقت گذرنے کے ساتھ جدت لانے کا کوئی’’ تکلف‘‘ نہیں کیا گیا،یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر عوامی خدمات بہتر انداز میں انجام دے رہا ہے، ہماری افسر شاہی تاحال خود کو ’’لارڈ صاحب‘‘ ہی خیال کرتی ہے عام فرد انکے دفتر میں داخل ہونے کا ’’رسک‘‘ آج بھی نہیں لیتا ۔

یہی ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر خاکی بیوروکریسی کے دل میں بھی خواہش نے جنم لیا کہ مراعات اور اختیارات کو ’’ انجوائے‘‘ کیا جائے، انکی آرزو کے سامنے سابق آمر ڈھیر ہوگئے اور انھوں نے سول بیوروکریسی میں کوٹہ مقرر کر دیا شائد اس کا مقصد افسر شاہی کی کارکردگی کو بہتر کرنا تھا، مگر یہ طبقہ بھی کوئی’’ معجزہ ‘‘دکھانے میں ناکام رہا ۔

افسر شاہی کی’’ حسن کارکردگی‘‘ دیکھ کر عوامی سطح پر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ شاہی مراعات کو کم کیا جائے،ان تحفظات کی بڑی وجہ افسر شاہی کا خود کو عوام سے الگ تھلگ رکھنا اور اپنی دنیا میں مگن رہنا بھی ہے ۔ عوام کے خادم ہونے کا کوئی وصف بھی ان میں نہیں پایا جاتا ۔ جسکا عندیہ بانی پاکستان نے دیا تھا ۔

اعلی اختیارات کی پوسٹوں اوربیرون ملک تعیناتی کی دوڑ میں افسر شاہی بُری طرح شریک رہی ہے، سیاسی قائدین ، جاگیر داروں ، سرمایہ کاروں نے ایسی پرکشش نشستیں دلوانے کی بھاری قیمت کسی نہ کسی صورت میں ان سے وصول کی ہے ۔

نواب امیر محمد خاں سے روایت ہے کہ انھوں نے اُس وقت کے سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر کو بتایا کہ گورا شاہی کا اپنا کروفر تھا، کرسمس کے موقع پر ساری ڈویژن کے بڑے جاگیر اور تمن دار،سردار زرق برق لباس اور شیر وانیاں پہن کر صبح سویرے ڈی سی ہاوس کے بڑے لان میں اکٹھے ہوتے تھے،گیارہ بجے کے قریب چپڑاسی باہر آکر کہتا’’ صاب ‘‘بولتا ہے کہ آپ کا مبارک باد مل گیا ہے یہ سن کرمسرت و انسباط کی لہر دوڑ جاتی اور ہم ایک دوسرے سے گلے ملتے گورا صاب کی زیارت کے بغیر محض مبارک بادقبول ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے، افسر شاہی عوام سے ایسے ہی’’ پروٹوکول‘‘ کی متمنی ہے،وہ گورا صاب کی روایت کو زندہ رکھنے کا جذبہ دل میں لئے ہوئے ہے ،اسی لئے ریاست کا ہر شعبہ شکوہ کناں ہے ۔

جمہوری اور غیر جمہوری عہد میں بعض پسندیدہ افسران ارباب اختیار کو پیارے بھی ہوتے رہے ہیں ، کچھ کے نصیب میں صرف او ایس ڈی ہی لکھا جاتا رہا ہے، اس تفاوت اوردست شفقت نے بھی اداروں کی کارکردگی کو متاثر کیا ہے ۔ ہمسایہ ملک کی افسر شاہی نے بھی اِسی کوکھ سے جنم لیا تھا جو ہمارا مقدر ٹھہری مگر وہاں شادی جیسے مقدس بندھن کے موقع پر ’’ نیک دختر‘‘ کو اربوں روپئے سلامی دینے کا کوئی سراغ نہیں پایا جاتا ۔

گمان ہے کہ جب سے سیاسی قیادت زیر عتاب ہے تب سے اسے یہ غم کھائے جارہا ہے کہ نیب کا ہر کوڑا انکی پیٹھ پر ہی کیوں برستا ہے،یہ ان کا نصیب کیوں نہیں جو بھاری بھر کم مراعات بھی لے رہے ہیں اور بدنام بھی انھیں کئے جارہے ہیں ، تاہم یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ مقابلہ کی اس فضاء میں فائدہ عوام ہی کو ملنے کا امکان ہے اگرانتظامیہ،عدلیہ میں ریفارمزکا آغاز کیا جاتا ہے ۔

سرکار کی جانب سے سی ایس ایس امتحان کے لئے امیدواران کی بالائی عمر میں رعایت دینا ہی کافی نہیں بلکہ گرتے ہوئے تعلیمی معیار کا جائزہ لینے کی بھی کوئی سبیل نکالنی چاہئے، تعلیمی ماہرین کی غالب تعداد سمسٹر سسٹم کو تعلیمی زوال کی بڑی وجہ قرار دیتی ہے،جس میں طلباء و طالبات نمبرز تو بہت لیتے ہیں مگر انکی تعلیمی قابلیت انتہائی سطحی ہوتی ہے، درسی کتب کے علاوہ مطالعہ کا شوق اب ناپید ہو تا جارہا ہے ۔

افسر شاہی کے نظام کو سامراج کی خرافات سے نکال کر از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت بھی ہے،ایسی ریفارمز درکار ہیں ، جس میں ’’ مقدس گائے ‘‘کے تخیل کی نفی ہوتی ہواور عام شہری کی بھی شنوائی ہو ۔

بھاری بھر کم اختیارات کے باوجود افسر شاہی کسی شہر کی حدود میں امن و امان فراہم اورذخیرہ اندوزوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے،مافیاز کو نکیل ڈالنے میں ناکام نظر آتی ہے ۔ اعلیٰ سروس کے لئے کوئی بھی امتحانی معیار رکھ دیا جائے وہ بے معنی ہوگا جب تلک کرپشن اور اقرباء پروری پر قابو نہیں پایا جاتا، افسر شاہی کی تاریخ میں ایسے باکمال اعلیٰ افسران بھی گذرے ہیں جنکی صلاحیت اور دیانت پر رشک کیا جاتا ہے،سماج کو ایسی افسر شاہی ہی مطلوب ہے وہ درکار نہیں جو سرکاری بادشاہت کے منصب پر فائز ہو ۔