سینئر صحافی عطاء الحق قاسمی نے کہا ہےجو لوگ میاں نواز شریف کو اپنے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر جب سابق وزیراعظم کا طیارہ پاکستان میں لینڈ کرے تو ان کے استقبال کے لئے کم از کم دو تین لاکھ عوام وہاں موجود ہونے چاہئیں اگر آپ ایسا نہیں کر پاتےتو ان کے مخالفین کے لئے مزید مظالم کی ایک اور راہ ہموار ہو جائے گی۔
انہوں نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ میاں نواز شریف کی لندن سے واپسی کے حوالے سے متضاد باتیں کی جا رہی ہیں اور کچھ باتیں تو بالکل علم میں آنے والی ہیں، ایک لیگی رہنما نے عوام کویہ خوشخبری سنائی کہ میاں صاحب نہ صرف یہ کہ واپس آ رہے ہیں بلکہ فلاں تاریخ کو فلاں شہر میں عوام سے خطاب بھی کریں گے۔جبکہ بادی النظر میں فی الحال اس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ میری ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر آپ میاں صاحب کو اس صورتحال کے باوجود اپنے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر جب ان کا طیارہ پاکستان میں لینڈ کرے تو ان کے استقبال کے لئے کم از کم دو تین لاکھ عوام وہاں موجود ہونے چاہئیں اگر آپ ایسا نہیں کر پاتے اور کارکنوں سے ایک طویل دوری کے سبب نہیں کر پائیں گے تو ان کے مخالفین کے لئے مزید مظالم کی ایک اور راہ ہموار ہو جائے گی۔ ان دنوں سارے فیصلے اپنے ہی ظاہری اور ’’باطنی‘‘ دباؤپر کئے جا رہے ہیں۔
میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک صورت بھی ممکن نہیں تو پھر آپ الگ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں، میاں صاحب سے ہدایات لیتے رہیں لیکن انہیں پاکستان آنے کے لئے نہ کہیں، وہ اس وقت اپنی عمر کے ستر سال سے بھی کچھ اوپر پورے کرچکے ہیں، دو دفعہ ان کا بائی پاس ہو چکا ہے اور ان میں سے ایک کے دوران ان کی زندگی خطرے میں پڑ گئی تھی، اس کے علاوہ بہت سے چھوٹے بڑے مسائل صحت کے حوالے سے ہیں، چنانچہ جو لوگ ان کی جان کے دشمن ہیں وہ انہیں ایک بار پھر کال کوٹھڑی میں پھینک دیں گے۔