پہلے ہمارا خیال تھا صرف اپوزیشن جماعتیں گھبرائی ہوئی ہیں مگر ان کی گھبراہٹ ان کے اس دعوے کے مطابق ہرگز نہیں کہ وہ عوام کے مسائل حل نہ کرنے یا روز بروز بڑھنے کی وجہ سے وزیر اعظم خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا رہے ہیں۔… ’’چولی کے پیچھے کیا ہے؟‘‘باخبر ذرائع بخوبی جانتے ہیں۔ جب سے موجودہ حکمران اقتدار میں آئے ہیں عوام کی پریشانیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی گئی ہیں۔ چار برسوں تک عوام کی پریشانیوں کو اپوزیشن جماعتیں ذرا خاطر میں نہیں لائیں۔ اب جبکہ موجودہ حکمرانوں کا ایک برس باقی رہ گیا ہے ، اور عوام اگلے الیکشن میں اپنی پریشانیوں کا حساب لینے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو رہے ہیں ، اچانک اپوزیشن جماعتوں کو عوام کے درد کے مروڑ کیوں اٹھنے لگے ہیں؟۔ اپوزیشن جماعتیں اپنی تازہ ترین سیاست کے ذریعے اپنا کنفرٹ لیول کس کے ساتھ بہتر کرنا چاہتی ہیں کہ اگلے انتخابات میں ان کے اقتدار کا حصہ پچھلے انتخابات سے زیادہ ہو؟ ان رازوں سے پردہ آئندہ دنوں میں ممکن ہے مکمل طور پر نہ ہی تھوڑا بہت شاید اٹھ جائے۔ بے شمار پاکستانی سیاستدانوں کو اس ملک کی اصلی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے رکھا ہوا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جو سیاستدان جتنا زیادہ استعمال ہونے کی یقین دہانی کروا دے اقتدار کے لئے اس کی راہ اتنی ہموار ہونے لگتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں عمومی تاثر یہی تھا وہ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے۔ انہیں صرف استعمال کرنے کے لئے رکھا ہوا ہے… خان صاحب کو اس حوالے سے بھی نواز شریف کا شکر گزار ہونا چاہئے وہ ایک ’’مردے‘‘ کی طرح آ کڑ گئے اور قسمت کی دیوی خان صاحب پر مہربان ہو گئی۔ قسمت کی دیوی آج کل کہاں ہے؟ وزیر اعظم کے دورہ روس میں تو ساتھ نہیں تھی… یہ تاثر بڑا مضبوط ہے شریف برادران نے اپنے مختلف ادوار اقتدار میں جائز ناجائزطریقوں سے جی بھر کے ملک کولوٹا۔ مگر اس سے بھی زیادہ مضبوط تاثر یہ ہے انہیں سزا لوٹ مار کی نہیں سر اٹھانے کی ملی۔کرپشن یہاں کسی کا مسئلہ نہیں ہے۔ سر جھکا کر کوئی کرپشن کرتا رہے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ سارا معاملہ سر اٹھانے کی صورت میں خراب ہوتا ہے۔ ورنہ جب ہمارے اکثر سیاسی حکمران کرپشن کر رہے ہوتے ہیں ، دو دو ہاتھوں بلکہ پورے پورے جسموں سے ملک کو لوٹ رہے ہوتے ہیں اس وقت کوئی انہیں کیوں روکنے کی کوششیں نہیں کرتا اس وقت ساری توجہ بس ان کی کرپشن کا حساب کتاب رکھنے پر رکھی جاتی ہے تا کہ بوقت ضرورت اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ نواز شریف کا المیہ یہ ہے جن اسٹیبلشمنٹ کے سہارے یا جن کے کاندھوں پر بیٹھ کر وہ اقتدار میں آتے ہیں کچھ عرصے بعد انہی کے ساتھ ان کے پھڈے شروع ہو جاتے ہیں جس کے بعد ان کے پھٹے چکے جاتے ہیں۔ اصل میں وہ یہ بھول جاتے ہیں جو اقتدار میں لا سکتے ہیں وہ اقتدار سے ہٹا بھی سکتے ہیں… جہاں تک اقتدار کھونے کے بعد ان کے تخلیق کردہ نئے ایمان ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کا تعلق ہے ، اس نعرے میں ذرا جان اس لئے محسوس نہیں ہوتی اپنے ہر دور اقتدار میں جو سلوک وہ پارلیمینٹ یا ارکان پارلیمینٹ سے کرتے رہے ، جس طرح سیاست اور حکومت کے وہ ’’مجازی خدا‘‘ بنے ہوئے تھے اس سے رتی بھر یہ تاثر قائم نہیں ہو سکا وہ ووٹ کو عزت دیتے ہیں ، البتہ ’’نوٹ‘‘ کو عزت دینے کے معاملے میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا… اقتدار میں آ کر اداروں سے غیر ضروری طور پر محض اپنے ذاتی مفادات کے لئے الجھنا ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ عادت تبدیل ہو سکتی ہے فطرت تبدیل نہیں ہوتی۔ نو دس برسوں کی جلاوطنی کے بعد بھی نہیں ہوتی۔ ان کا مسئلہ یہ ہے وہ جب اقتدار میں آتے ہیں یا لائے جاتے ہیں ان کی خواہش اور کوششیں ہوتی ہے ان کی مرضی کے بغیر چڑیا پر نہ مارے۔ آرمی چیف ویسے ہی ان کے تابع ہو جیسے آئی جی ہوتا ہے۔ وہ ویسے ہی ان سے ڈرے جیسے آئی جی ڈرتا ہے۔ اسی طرح ان کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے چیف جسٹس آف پاکستان ویسے ہی ان کے تابع یا تابعدار ہو جیسے چیف سیکرٹری ہوتا ہے۔ وہ بھی ویسے ہی ان سے خوف کھائے جیسے چیف سیکرٹری وغیرہ کھاتے ہیں۔ ویسے ہی ان کا ہر جائز ناجائز حکم مانے جیسے چیف سیکرٹری وغیرہ اپنے عہدے بچانے کے لئے مانتے ہیں۔ افواج پاکستان اور عدلیہ میں تبادلوں کا ویسے ہی ان کے پاس اختیار ہو جیسے پولیس اور انتظامیہ میں تبادلوں کا ہوتا ہے۔ کچھ ’’عدالتی حکمران‘‘ ایسی ’’سروسز‘‘ فراہم کرتے بھی رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک چیف جسٹس ان کے اتنے فرمان بردار ہوتے تھے وہ اپنے ما تحت ججوں کے تبادلے لیگی ایم این ایز اور ایم پی ایز کی سفارشوں پر کرتے رہے۔ ایک بار میری موجودگی میں لاہور کے ایک رکن قومی اسمبلی نے انہیں ایک ایڈیشنل سیشن جج کے تبادلے کی سفارش کی ، انہوں نے فرمایا ’’پچھلے مہینے ایک تبادلہ آپ کی سفارش پر کر دیا تھا۔ اب اس تبادلے کے لئے ذرا ’’چھوٹے میاں صاحب‘‘ کا ایک چھوٹا سا فون کروا دیں‘‘… ایم این اے صاحب نے کھڑے کھڑے ان کا فون کروا دیا اور اس کے چند گھنٹوں بعد اس ایڈیشنل سیشن جج کے تبادلے کے آرڈز ہو گئے… افواج پاکستان کے سربراہان انہیں ایسی ’’سروسز‘‘ دینے سے قاصر رہے جس کے غصے میں ان کی کسی آرمی چیف سے نہیں بنی ۔ البتہ شہباز شریف صاحب ایسے معاملات میں اچھے خاصے سیانے ہیں۔ میرے خیال میں 2017ء میں اپنا عہدہ ختم ہونے کے بعد یا پانامہ لیکس کا شکار ہونے کے بعد نواز شریف اگر شاہد خاقان عباسی کی جگہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا دیتے انہوں نے سب معاملات خصوصاً روٹھی ہوئی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک کر لینے تھے۔ جس کے بعد خان صاحب ہرگز اقتدار کے لئے ’’مجبوری‘‘ نہ بن پاتے۔ 2018ء کے انتخابات میں نواز شریف اکڑے رہے، شہباز شریف بڑے بھائی کے ادب میں خاموش رہے ، پیپلز پارٹی اتنی مقبول نہیں تھی نہ اتنی پسندیدہ تھی کہ پورے ملک کا اقتدار اسے سونپ دیا جاتا۔ سو خان صاحب مجبوری بن گئے۔ ’’تبدیلی‘‘ گلے نہیں پڑی اصل میں ’’مجبوری‘‘ گل پڑی ہوئی ہے۔ یہ ہڈی اب نگلی جا رہی ہے نہ تھوکی جا رہی ہے ۔ماضی کے سیاسی حکمرانوں کے مقابلے میں کئی لحاظ سے وہ بہتر ہیں۔ اس کے باوجود کہ تبدیلی تباہی بنی ہوئی ہے خان صاحب ابھی اتنے غیر مقبول نہیں ہوئے کہ انہیں کسی طریقے سے قبل از وقت نکالنے میں آسانی محسوس کی جائے۔ سو اپوزیشن کی یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ خان صاحب گھبرا گئے ہیں۔ میرے خیال میں تو وہ گھبرائے نہیں ہیں۔ اصل میں وہ اپوزیشن کو اسی طرح ہینڈل کر رہے ہیں جس طرح اپوزیشن انہیں کر رہی ہے۔