ملک میں مہنگائی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا حالانکہ اربابِ اختیار پاکستان کو دنیا کا سب سے سستا ملک قرار دیتے ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ موجودہ حکومت کے تشکیل پانے سے لیکر اب تک گرانی میں خوفناک حد تک اضافہ ہوتا جارہاہے جس سے نہ صرف نچلے طبقے کی مشکلات میں اضافہ ہوا بلکہ درمیانے طبقے کا سکون بھی غارت ہوا مشکلات اور بے سکونی میں ضمنی بجٹوں نے مزید اضافہ کیا اسی بنا پر سیاسی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا اور آج حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ ایک طرف پی ڈی ایم تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کرنے کے لیے کوشاں ہے تو بلاول بھٹوپیپلز پارٹی کا لانگ مارچ لیکر نکل کھڑے ہیں ایسے حالات میں جب حکومتی اطوار کی طرف نظریں اُٹھتی ہیں تو وہاںعوامی مسائل حل کرنے کا جذبہ مفقود نظر آتاہے اور حریف سیاسی قیادت پر دشنام طرازی کے لیے ہی توانائیاں وقف دکھائی دیتی ہیں ایسے انداز اور مزاج عوامی حلقوں میں پزیرائی حاصل نہیں کرتے ۔
چین کے بعد روس کے روس دورے سے عمران خان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے حالانکہ ملک میں اپوزیشن کے اطوار میں بے چینی ہے اور وہ یہ بے چینی اب عوامی حلقوں تک منتقل کرنے کے لیے کوشاں ہے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ کے لیے الگ الگ تاریخیں اعلان کر رکھی ہیں اس سے حکومت پر دبائو میں مزیداضافہ ہوگا لیکن وزیرِ اعظم نے اپنی حالیہ تقریر میں جس طرح پیٹرول دس روپے،بجلی پانچ روپے اور بے روزگار گریجویٹ نوجوانوں کو تیس ہزار ماہانہ انٹرن شپ کا جو اعلان کیا ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے آگ سے بننے والے زخم پر ٹھنڈا مرہم رکھنا ،تقریر میں آئی ٹی سیکٹر کے لیے سوفیصد چھوٹ اور اوورسیز پاکستانیوں کو انڈسٹری میں سرمایہ کاری پر پانچ سالہ چھوٹ ایک اور الگ نرم پھاہا ہے اِس سے ملک میں نہ صرف آئی ٹی صنعت کو فروغ ملے گا بلکہ اوورسیز جس طرح اپنی کمائی بڑے بڑے مکان بنانے یا زمینوں کی خریدوفروخت میں لگا رہے ہیں انھیں صنعتکاری کی طرف راغب کرنے میں مدد ملے گی منجمد سرمائے کو پید اواری عمل شروع کرنے کی طرف لانا احسن فیصلہ ہے اب ضرورت اِس امرکی ہے کہ یہ فیصلہ باتوں تک محدود نہ رہے بلکہ فیصلے پر عملدرآمد بھی ہو ۔
ملک کے معاشی حالات اچھے نہیں جب عالمی سطح پرجنم لینے والی مہنگائی کی لہر عام شہریوں کو متاثرکررہی تھی تو حکومت کو روزگاربڑھانے کے منصوبوں کی طرف توجہ دینی چاہیے تھی مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہواجس سے مہنگائی سے سسکنے والے شہریوں کے لیے آمدن کے ذرائع میں کمی آئی اور جب اپوزیشن نے احتجاجی سلسلہ شروع کیاتو عام لوگوں نے بھی سنجیدہ لیا یہ سنجیدگی کنٹونمنٹ اور کے پی کے
میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی نظر آئی اِس سے پہلے کہ جلتا زخم مزید خراب ہوتا اب مہنگائی کم کرنے کے ٹھنڈے مرہم سے حکومت پر عوامی دبائو میں بھی کمی آئے گی اور نئی مراعات سے اگر صنعت کو فروغ ملتا اور پیداواری عمل بڑھتا ہے تو نہ صرف روزگار کے نئے مواقع پیداہوں گے بلکہ برآمدات میں بھی بہتری کی توقع ہے جس سے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دبائو بھی کم ہوگا۔
اسی لاکھ کو بارہ ہزار کی بجائے چودہ ہزار کی مالی مدد اور انڈسٹری لگانے والوں سے کوئی سوال نہ پوچھنے کے فیصلے اچھے اقدامات ہیں لیکن اِس مالی مدد کاطریقہ کار مزید بہتراور نفع بخش بنایا جاسکتا ہے اگر ملک میں بے روزگار نوجوانوں کوہُنر مندبنانے کی طرف توجہ دی جائے اورچودہ ہزار حاصل کرنے والوں کو کوئی نہ کوئی ہُنر سیکھنے کا پابند بنایا جائے مزید یہ کہ ہُنر سیکھنے کے بعدیکمشت معقول امداد دے کر اپنا کاروبار شروع کرنے میں معاونت سے اُنھیں مستقل طورپر پائوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اِس وقت ملک کے جو اسی لاکھ خاندان ماہانہ چودہ ہزارپیسے وصول کر رہے ہیں اُس سے غربت ختم کرنے یا روزگار بڑھانے جیساکوئی فائدہ نہیں ہورہا البتہ ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جن کا گزراوقات کے لیے حکومت پر تکیہ ہے یہ بھکاری بننے کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے لیکن شہریوں کو ہُنر مند بناکر نہ صرف بڑی تعداد کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے بلکہ بیرونِ ملک بھی ہُنر مند افرادی قوت بھجواکر ترسیلاتِ زر میں اضافہ کر سکتے ہیں ماہانہ مالی مدد لینے والے جو لوگ اچھے روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں اُن کی جگہ نئے خاندانوں کو مالی مدد کے منصوبے کا حصہ بنا سکتے ہیں ۔
کسی ملک کے سربراہ کاعالمی شخصیات میں شمار ہونا اچھی خوبی ہے کیونکہ ایسا ہونے کی بنا پر اپنا موقف زیادہ بہتر طریقے سے پہنچایا اور منوایا جا سکتا ہے کیونکہ معروف چہرے کود نیا توجہ سے سُنتی ہے لیکن ہر معاملے میں بولنا اور بے تکان بولنا خوبی بھی خامی بن جاتی ہے بات وہی بہتر ہے جو بروقت اور مدلل ہو لیکن ہمارے وزیرِ اعظم کو بولتے ہوئے سامعین کی ذہنی سطح، حالات اور فراغت کا شاید علم نہیں ہوتا اسی لیے بات کرتے ہوئے اختصار کی بجائے طول دیتے ہیں یہ اندازِ بیان اچھا نہیں بلکہ سُننے والوں کو غلط تاثر ملتا ہے چین کے بعد روس میں بھی اچھی آئو بھگت ہوئی اور پاکستان کاعالمی سطح پر امیج بہتر ہوا ہے مگراچھی آئو بھگت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم امریکہ سے دوراورچین ،روس کے قریب ہورہے ہیں اِس لیے دونوں ملکوں میں اچھی آئو بھگت ہوئی اب بہتر یہ ہے عالمی معاملات کے ساتھ ملکی مسائل پر بھی توجہ دی جائے بجلی اور پیٹرول کے نرخ کم کرتے ہوئے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگلے بجٹ تک قیمتیں برقرار رہیں گی اور اُن میں اضافہ نہیں کیا جائے گالیکن یہ وعدہ دیگر وعدوں کی طرح نظر انداز کرنے کی بجائے پورا کیا جائے تبھی متنفر لوگوں کا اعتماد بحال ہو گا وگرنہ قیمتوں میں کمی کو جلتے زخم پر ٹھنڈامرہم سمجھنے والے مزید بددل ہوں گے۔
افغانستان سے نکلنے کے بعدپاکستان سے امریکہ دور ہورہا ہے جس میں کوئی دورائے نہیں اگر امریکہ نے ڈرون حملے کیے تو کم سہی ہماری قیادت کو ڈالربھی دیئے لیکن باربار دُہرانے اور تنقید کا کوئی جوازنہیں امریکہ سے دوری کا اِس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتاہے کہ جوبائیڈن نے صدر بننے کے بعد پاکستانی قیادت سے بات تک کرنا گوارہ نہیںکیا دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی کو نظر انداز کرنا خالی ازعلت نہیںاِن حالات کی بناپر پاکستان کا متبادل ذرائع تلاش کرنا مجبوری ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے کسی کو چڑانا بھی کوئی دانشمندی نہیں کیونکہ ہر وقت طعنے دینے کا عمل کسی کو نظر انداز کرنے کے بعد انتقامی کاروائیوں کی نوبت لا سکتا ہے شاہ محمود قریشی خود اعتراف کر چکے کہ دورہ روس سے قبل معصومانہ سوال کیا گیا جس کا ہم نے مودبانہ جواب دیا لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ملکی حالات بہتر بنانے پر توجہ مبذول کی جائے عمران خان نے مہنگائی و بے روزگاری کے زخم پر مرہم کا مژدہ سنایا ضرور ہے اب کچھ عمل کرنے پر بھی توجہ دی جائے۔
جلتے زخم پر ٹھنڈا مرہم
09:15 AM, 3 Mar, 2022