نظریاتی صحافت کا ایک درخشندہ ستارا…جو ڈوب گیا!

نظریاتی صحافت کا ایک درخشندہ ستارا…جو ڈوب گیا!

نئی بات کے گروپ ایڈیٹر اور بزرگ صحافی پروفیسر عطا ء لرحمن مرحوم سے ذاتی طور پر کوئی زیادہ راہ و رسم نہ ہونے کے باوجود ایسا قلبی ، ذہنی ، فکری اور نظریاتی تعلق بنا ہواتھا کہ لگتا تھا جیسے ان سے برسوں سے قربت اور ہم آہنگی چلی آرہی ہو۔ بالمشافہ ان سے شاید ایک آدھ بارہی ملاقات ہوئی ہو گی ۔ فون پر بھی زیادہ سے زیادہ پانچ ، چھ بار رابطہ رہاہوگا۔لیکن گزشتہ جمعتہ المبارک کو انکی وفات کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک سائباںیا ایک فکری اور نظریاتی رہبر سے محروم ہوگیا ہوں ۔ وہ بلاشبہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ صحافت کے میدان میں ایک (نظریاتی) ستون تھے جو ساری زندگی اسلام ، پاکستان اور نظریہ پاکستان سے محبت، جمہوریت ، آئین و قانون اور پارلیمنٹ کی بالا ستی ،عوام کی رائے کے ا حترام اور غیر جمہوری قوتوں اورماوراآئینی اقدامات کی مخالفت جیسے اپنے اصولوں پر مضبوطی سے کار بند ہی نہ رہے بلکہ ان کیلئے کسی مصلحت ،منفعت یا لالچ کو بھی خاطر میں نہ لائے ۔ 
محترم عطاء الرحمن مرحوم و مغفور روزنامہ نئی بات کے اجراء سے اس کے گروپ ایڈیٹر کے منصب پر فائز تھے تو یقینا اخبار کی ٹھوس اور مثبت پالیسیوں کی ترتیب و تشکیل اور اخبار کی ترقی اور اسے اس مقام تک پہنچانے میں انکا بڑا ہاتھ رہا ہے ۔ آج روزنامہ نئی بات اپنی معنوی ، صوری اور فکری خوبیوں کے بنا پر اپنے معاصرین میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام کا مالک ہے تو یقینا اسکا بڑی حد تک کریڈٹ انہیں دیا جاسکتاہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ انکے یاانکی راہنمائی میں تحریر کردہ اخبار کے ادارئیے اور اخبار میں چھپنے والے انکے ہفتہ وار دو کالم اپنے موضوعات ،نفس مضمون اور حسن تحریر کی بنا پر پڑھنے سے تعلق رکھتے تھے بلکہ ٹھوس دلائل و براہین کی بنا پر ہماری طرح کے بہت سارے لوگوں کیلئے راہنمائی کے منبع کی صورت بھی اختیار کیے ہوئے تھے ۔
محترم عطاء الرحمن مرحوم و مغفور سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا اور جیسے میں نے اوپر کہا ان سے بالمشافہ میل ملاقات اور رابطے کے مواقع بھی نہ ہونے کے بابر ملے ہونگے۔ لیکن سچی بات ہے کہ پچھلے کئی عشروں سے انکی تحریروں (کالموں)کا مستقل قاری ہونے کے ناطے ان سے غائبانہ نیاز بندی اور عقیدت واحترام کا جو رشتہ استوار تھا اسکی بنا پر انکی وفات پر دلی دکھ اور رنج ہوا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جمعہ25فروری کی شام کو اچھرہ کے پاکستان چوک کی جنازہ گا ہ میں بستی کے عام لوگوں اور مرحوم کے عزیز واقارب سمیت ادب و صحافت اور میڈیا سے  وابستہ شخصیات کی ان سے محبت ، لگاواور عقیدت کے جو مناظر دیکھنے کو ملے وہ کچھ کم متاثر کن نہیں تھے۔ پھر اگلے دن شام کو مکرم و محترم سینیٹرجناب عرفان صدیقی کے ہمراہ نئی بات میڈیا نیٹ ورک (روزنامہ نئی بات ونیو ٹی وی چینل )کے مرکزی دفاتر میں انکے رفقائے کار بالخصوص نئی بات میڈیا نیٹ ورک کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمان چوہدری کی مرحوم سے خصوصی محبت ، لگاو اور تعلق کے جو مظاہردیکھنے کو ملے وہ سب کچھ میرے لیے کسی حد تک حیران کن ہی نہیں تھا بلکہ انکی بنا پر جہاں مرحوم سے میری  عقیدت و احترام کے جذبات کو اور تقویت حاصل ہوئی وہاں نئی بات میڈیا نیٹ ورک کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن چوہدری اور انکے رفقائے کا رکے بارے میں میرے دل میں مزید عزت افزائی کے جذبات بھی پیدا ہوئے ۔ محترم عطاء الرحمن مرحوم و مغفور کے رفقائے کار اور انکے ادارے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن چوہدری مرحوم کی شخصی خوبیوں ، انکی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور انکی اصو ل 
ونظریا ت سے عبارت صحافتی و نجی زندگی اور اپنے نظریات سے گہر ی وابستگی کا ذکر کررہے تھے تو لگ رہا تھا کہ جو کچھ بولا اور بتایا جارہاہے وہ پر خلوس جذبات اور سچائی کا اظہار ہی نہیں ہے بلکہ سننے والوں کے دلوں پر بھی دستک دے رہا ہے۔ میرے لیے یہ منظر حیران کن بلکہ متاثر کن تھا کہ محترم عرفان صدیقی جناب  عطاء الرحمن مرحوم و مغفور سے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کررہے تھے تو یہ ذکر سنتے ہوئے نئی بات میڈیا نیٹ ورک کے چیئر مین پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن چوہدری کی آنکھوں سے بے ساختہ بہنے والے آنسو انکے رخساروں پر موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ خود پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن چوہدری جناب عطاء الرحمن مرحوم و مغفور سے اپنی طویل اور دیرینہ رفاقت اور وابستگی سے جڑی یادوں اور باتوں کا ذکر کررہے تھے تو خود انکی آواز بھی رُندھی ہوئی تھی ۔ یہی حال گفتگو کرتے ہوئے نئی بات میڈیا نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے مرحوم کے دیگر رفقائے کا ر بھی تھا ۔ انکا کہنا تھا کہ صحافت کے میدان میں انہوں نے مرحوم سے بہت کچھ سیکھا ہی نہیں بلکہ انکی راہنمائی میں بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے ۔
جمعہ 25فروری کو ہمدم دیرینہ قابل صداحترام سینیٹر محترم عرفان صدیقی کی رفاقت میں پنڈی سے لاہور کیلئے راونگی ہوئی تو جہاں جمعہ کی رات کو ایک انتہائی عزیز ، پیاری اور محترم شخصیت کے بیٹے کی شادی میں شرکت اہم ترین فریضہ تھا تو ساتھ ہی ہفتہ صبح دس بجے اتفاق ہسپتال میں زیر علاج محترم عطاء الرحمن کی عیادت اور اسکے بعد نئی بات میڈیا نیٹ ورک کے مرکزی دفاتر کا چکر لگانا بھی پروگرام میں شامل تھا ۔ تاہم قدرت کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ انسان جس طرح سوچے اسی طرح ہر بات پوری بھی ہوجائے ۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسے ہی ہوا ۔ جمعہ کو 12بجے کے لگ بھگ موٹروے پر بھیرہ ریسٹ ایریا میں ہم چائے وغیر پینے کیلئے روکے تو اسی دوران محترم عرفان صدیقی کو لندن سے جناب میاں محمد نواز شریف کا وائس مسیج ملا جس میں انہوں نے عرفان صاحب کی خیریت دریافت کی ۔ عرفان صاحب نے میاں صاحب کو محترم عطاء الرحمن کی علالت اور انکے اتفاق ہسپتال میں زیر علاج ہونے اور اگلے دن انکی عیاد ت کیلئے اتفاق ہسپتال میں جانے کے پروگرام سے آگاہ کیا تو میاں صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ (عرفان صاحب ) جناب عطاء الرحمن کی عیادت کیلئے جائیں تو ان (میاں محمدنواز شریف )کی طرف سے بیمار پرسی کرنے کے ساتھ پھولوں کا گلدستہ بھی پیش کریں ۔ عرفان صاحب اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان صوتی پیغام کا یہ سلسلہ ختم ہونے کے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ عرفان صاحب کے موبائل کی سکرین پر ایک اور پیغام جھلملانے لگا۔ یہ پیغام غالباً روزنامہ نئی بات کے ایڈیٹر کوآرڈی نیشن جناب اسد شہزاد کا تھا۔ جس میں جناب عطاء الرحمن کے انتقال کا ذکر تھا ۔اسی دوران مجھے بھی نئی بات کے ایڈیٹوریل انچارج جناب زاہد رفیق کا عطاء الرحمن کے انتقال پرملال کے بارے میں پیغام موصول ہوا۔ یہ عجیب بات ہے کہ محترم عطاء الرحمن سے ملاقات ہوئی ضرور لیکن اتفاق ہسپتال میں انکی عیادت کرتے ہوئے نہیں بلکہ اچھر ہ کی جناز گاہ میں انکا جنازہ پڑھتے اور انکے جسد خاکی کی زیار ت کرتے ہوئے ۔ نئی بات میڈیا نیٹ ورک کے مرکزی دفاتر کا چکر بھی ضرور لگا لیکن جناب عطاء الرحمن کے سانسوں کی ڈوری چلنے کے دوران نہیں بلکہ اس ڈوری کے ٹوٹنے کے بعد انکے رفقائے کار سے تعزیت کرنے کیلئے جانے کی صورت میں ۔ 
محترم جناب عطاء الرحمن کے بارے میں اپنی یادوں کریدوں تو مجھے اڑھائی تین عشرے قبل کا زمانہ یاد آتا ہے جب وہ جناب مجب الرحمن شامی کے جریدے ہفت روزہ زندگی سے وابستہ ہوئے ۔ پھر پچھلے صدی کے اوخر یا موجودہ صدی کے اوائل میں نوائے وقت میں تجزیہ کے عنوان سے ان کے کالم چھپنے لگے۔ بلاشبہ یہ کالم جمہوری قدروں کی پاسداری ، آئین وقانون کی بالادستی اور عوامی رائے (ووٹ)کو فوقیت دینے کے اصولوں اور نظریات کو اپنے اندر سمیٹے ہوتے تھے۔ یہ فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کا آمرانہ دور تھا اور جناب عطاء الرحمن آمر کے غیر جمہوری اور ماورا آئین اقدمات کو کھلم کھلا اپنی تنقید کا نشانہ ہی نہ بناتے بلکہ میاں محمد نواز شریف جن سے جنرل مشرف نے اقتدار چھینا تھا کے بارے میں انکے ہمدردانہ لگائو کے جذبات بھی ڈھکے چھپے نہ رہتے۔ بعد میں انکے کالم روزنامہ جنگ میں چھپنے لگے تب بھی راقم انکا بدستورقاری رہا ۔ نئی بات کااجراء ہو تو جناب عطاء الرحمن اسکے ساتھ بطور گروپ ایڈیٹر وابستہ ہوگے ۔ انکی مرحوم رئوف طاہر اور جناب مجیب الرحمن شامی جیسے اپنے دیرینہ اور قریبی ساتھیوں سے وابستگی ہی قائم نہ رہی بلکہ گاڑھی چھنتی بھی رہی ۔  میاں محمد نواز شریف کی تیسری وزارت عظمیٰ کے دور میں غالباً 2014 میں انہیں اور جناب رئوف طاہر کو محترم عرفان صدیقی کی کاوشوں سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ملا۔ جناب رئوف طاہر ڈیڑھ دو سال قبل اللہ کو پیارے ہوئے تو اب محترم عطاء الرحمن مرحوم و مغفور ان سے جا ملے ہیں۔

مصنف کے بارے میں