بلوچستان کے مسئلہ کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ کسی ایک کو اس کا ذمہ دار قرار دینا قرین انصاف نہیں ہیں۔ ذرائع ابلاغ کا کام خبر کو لوگوں تک پہنچانا ہے لیکن بلوچستان کے مسئلہ پر میڈیا مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اور یہ روش نہ بدلی تو ملک کسی بڑے سانحے سے دوچار ہو سکتا ہے، پھر ہم سب بیٹھ کر ٹسوے بہائیں گے۔ بلوچستان کو فوج کے سپرد کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا اور اس کا نقصان یہ ہو گا کہ یہ مسئلہ فوجی نوعیت کا بن جائے گا۔ سیاست دانوں اور رائے عامہ ہموار کرنے کے اداروں کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہو گی۔قومی سطح پر اس مسئلہ کو سیاسی طور پر حل کرنے کے لیے اب تک کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ محض چیئرمین سینیٹ بنانے سے بلوچستان کا سیاسی مسئلہ حل نہیں ہو گا اور جن لوگوں کو بلوچستان میں اقتدار دلایا جاتا ہے ان پر عوام کا اعتماد نہیں ہے۔ ہم نے جمہوری ریاست ہوتے ہوئے بھی بلوچستان میں قبائلی عمائدین کے ذریعے ہی حکومت کرنا مناسب سمجھا ہے اور خطے کی بدلتی صورتحال کے تحت اپنی پالیسی کو ترتیب دینے کی کوشش نہیں کی۔ بلوچستان کے لوگ ملک کے باقی حصوں میں آکر بھی خود کو اجنبی کیوں محسوس کرتے ہیں انہیں یہ کیوں لگتا ہے کہ ان سے امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ ملک کی بہت سی یونیورسٹیوں میں بلوچ طلبا وظائف پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن انتظامی طور پر ہم ان کے خلاف اس قسم کی کاروائیاں کرتے ہیں کہ انہیں یہ لگتا ہے کہ وہ پاکستانی سماج میں اجنبی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے ان طالب علموں کی پروفائلنگ شروع کرنے کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا دہشت گردی صرف بلوچستان میں ہو رہی ہے؟ پروفائلنگ کرنی ہے تو سب طالب علموں کی کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کس طالب علم کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے اور وہ کسی انتہا پسند تنظیم سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں۔
ابھی کل کی بات ہے کہ بلوچستان کے طالب علم اسلام آباد کے پریس کلب کے باہر جمع ہوئے اور ان کا مقصد احتجاج کرنا تھا۔ یہ طالب علم قائد اعظم یونیورسٹی کے تھے اور ان کا الزام تھا کہ انہیں یونیورسٹی میں حراساں کیا جا رہا ہے۔ کیمپس کے اندر بلوچ طلبا
کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ان کا ریکارڈ جمع کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کیمپس میں ایک خوف کی کیفیت موجود ہے۔ پرامن احتجاج کرنے والے ان طالب علموں پر پولیس نے دھاوا بول دیا، ان پر لاٹھی چارج کیا گیا ان کے موبائل فون چھین لیے گئے۔انہیں پرامن ریلی نکالنے سے روک دیا۔ طالب علم یہ الزام بھی عائد کر رہے تھے کہ ان کے ایک طالب علم ساتھی جو ایم فل کا طالبعلم ہے اسے فون کال موصول ہوئی کہ ملاقات کی جائے اس نے انکار کیا اور اس کے بعد سے وہ لاپتہ ہے۔ پروفیسرز کے ذریعے ساتھی طالب علموں سے کہا جاتا ہے کہ بلوچ طلبا کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائیں۔
بلوچستان کا احساس محرومی صرف یہ نہیں کہ انہیں وسائل دیے جائیں بلکہ یہ بھی ہے کہ ان سے برابری کا سلوک کیا جائے۔ وہ ملک کے کسی کونے میں بھی جائیں تو انہیں یہ احساس نہ ہو کہ وہ اجنبی ہیں۔ انہیں آزادانہ طور نقل و حرکت کی آزادی ہو۔ اسلام آباد میں بیٹھ کو مسئلہ حل کرنے کی بجائے بلوچستان جا کر لوگوں سے بات کریں۔ کیا بلوچستان صرف چیف آف آرمی اسٹاف کی ذمہ داری ہے۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ بلوچستان کے دورے پر گئے ہیں اور وہ اس طرح کے دورے پہلے بھی کرتے ہیں۔ سوال جناب وزیر اعظم سے ہے کہ انہوں نے کتنی بار بلوچستان کا رخ کیا ہے۔ ہر ہفتے اور پندرہ دن بعد وہ لاہور تشریف لاتے ہیں تو کوئٹہ، ہرنائی اور گوادر بھی ان کے منتظر رہتے ہیں۔ وہاں جا کر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے ملاقاتیں کریں ان کی سنیں اپنی سنائیں اور لوگوں کو یہ احساس دلائیں کہ وہ ان میں سے ہی ہیں۔
ہر کام آپ قانون نافذ کرنے والے اداروں، فوج اور حساس اداروں کے سپرد نہیں کر سکتے انہیں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرنے دیں آپ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہوں۔ یہ ادارے ملکی سرحدوں اور ملک کی سلامتی کے لیے ہیں، سیاسی اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری سیاستدانوں کی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں اور ان کا محور بھی لاہور اور اسلام آباد ہی ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ملک کے دور دراز کے علاقوں میں رہنے والوں کے مسائل کیا ہیں اور ان کو حل کرنے کے لیے جو وسائل درکار ہیں انہیں مہیا کیے جا رہے ہیں یا نہیں؟ حکومت کو تو چھوڑیں ذرا اپوزیشن سے بھی جواب دہی کریں کہ انہوں نے بلوچستان کو کتنی اہمیت دی ہے اور ان لوگوں کے مسائل کو اجاگر کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے، بلوچستان کے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے ان کے اقدامات کیا تھے۔ جواب نفی میں ملے گا یا آئیں بائیں شائیں۔
پاکستان صرف لاہور اسلام آباد اور کراچی نہیں ہے بلکہ اس کا رقبہ آٹھ لاکھ اٹھاسی ہزار نو سو تیرہ مربع کلومیٹر ہے۔ اگر اس کے ایک ایک انچ کی حفاظت کی ذمہ داری قومی سلامتی کے اداروں کی ہے تو اس کے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ اس میں بسنے والا ہر ایک فرد برابر کا شہری ہے اور اس کے جان و مال کی حفاظت کرنا ریاست پر فرض ہے۔ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ زبردستی لوگوں کو لاپتہ کرنا ہے۔ کل کے مظاہرے میں بلوچ طالب علموں کے ساتھ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری کو بھی مار پڑی ہے کہ وہ ان لوگوں سے اظہار یک جہتی کے لیے وہاں موجود تھیں۔ باقی سیاسی جماعتیں چپ سادھے تماشا دیکھ رہی ہیں۔ شائد بلوچستان کو وہ اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ عدالتیں اپنے انداز میں لوگوں کو ریلیف فراہم کر رہی ہیں لیکن زبردستی لاپتہ ہونے والے اہل خانہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ان لاپتہ ہونے والے افراد کو بازیاب کرانا حکومت کا اولین فرض ہونا چاہیے۔ اگر کسی کی خلاف کوئی مقدمہ موجود ہے تو اس کا ٹرائل ہو اور جرم ثابت ہونے پر سزا دی جائے، محض شک کی بنیاد پر ہونے والے لاپتہ افراد کو بازیاب ہونا چاہیے۔ اگر یہ لوگ کسی ادارے کے پاس نہیں ہیں تو بھی ہمارے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ انہیں واپس لایا جائے۔ ایسا نہ کیا گیا تو اس سے احساس محرومی اور عدم تحفظ میں مزید اضافہ ہو گا۔ میڈیا بھی برابر کا ذمہ دار ہے کتنے ادارے ہیں جنہوں نے بلوچ طالب علموں پر ہونے والی لاٹھی چارج کی کوریج کی ہے۔ میڈیا میں بلیک آؤٹ نظر آ رہا ہے۔ جن لوگوں کو اسلام آباد میں ہونے والا مظاہرہ اور اس پر تشدد نظر نہیں آ رہا وہ دور دراز کے علاقوں میں ہونے والے عدم تحفظ کی کاروائیوں کو کس طرح اجاگر کریں گے۔