لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے نے مجھے ہلا کے رکھ دیا ہے، میں سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ ملک ایسے ہی شتر بے مہار چل رہا ہے، مجھے کسی نے کہا ، بس اللہ کے سہارے ہی چل رہا ہے تو میں چیخ پڑا، نہیں نہیں، اللہ کے سہارے چل رہا ہوتا تو اس کا یہ حال نہ ہوتا، مجھے لگتا ہے کہ ہمارا خد ا ہم سے ناراض ہو گیا ہے اور ہم سب کے سب بطور قوم کچھ شیطانوں کے حوالے ہو گئے ہیں۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک ٹرانسپورٹر چوہدری فلک شیر کا آج سے کوئی نو، دس ماہ پہلے ایک وارڈن سے جھگڑا ہو گیا۔ جھگڑا اس بات پر تھا کہ وہ مینوئل چالان بھی کر رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ سیف سٹی کے کیمروں کے ذریعے بھی چالان پہنچ رہے تھے۔ ہو یہ رہا تھا کہ مینوئل چالان اسی وقت ہاتھ میں تھما دیا جاتا تھا اور فون پر ایپس کے ذریعے فوری وصولی کر لی جاتی تھی مگر سیف سٹی کا چالان کئی روز کے بعد موصول ہوتا تھا۔ اس جھگڑے نے چوہدری فلک شیر کو لاہور ہائی کورٹ کی راہ دکھائی جہاں حیرت انگیز انکشافات ہوئے کہ چھ، سات برس ہو گئے مگر آج تک سیف سٹی کیمروں سے ای چالان کرنے اور جرمانے وصولنے کے لئے کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے۔ میرا خیال تھا کہ اربوں روپے جبکہ چوہدری فلک شیر کا خیال ہے کہ کھربوں روپے شہریوں سے وصول کئے جا چکے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جب کوئی قانون ہی موجود نہیں تو پھر یہ رقم کس کھاتے میں وصول کی جاتی ہے اور کہاں جاتی ہے تو ایک اور حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ پنجاب حکومت کے ذمے دار ہم سے جرمانوں کی مد میں وصول کی گئی رقم کا استعمال اور اس کی آڈٹ رپورٹ عدالت میں پیش کرنے میں ناکام ہو گئے۔ اب الزام یہ ہے کہ یہ کروڑوں روپے ماہانہ اور اربوں روپے سالانہ ہوم سیکرٹری، سی سی پی او، سی ٹی او اور ایسے ہی دوسرے سرکاری افسروں کی جیبوں میں پہنچ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا، یہ کیسے ممکن ہے، جواب ملا اگر یہ سب نہ ہو رہا ہوتا تو یہ لوگ عدالت کی آٹھ ، دس ماہ کی سماعت میں کوئی قانون اور کوئی آڈٹ رپورٹ پیش نہ کر دیتے، یہ لوگ مقدمہ جیت نہ جاتے کہ یہ سب درست کام کر رہے ہیں اور وہ ایسانہیں کر سکے۔
میں نے عدالتی فیصلے کے چیدہ چیدہ نکات دیکھے ، عدالت نے ہرگز ٹریفک کی مینجمنٹ کے لئے جدید نطام کی مخالفت نہیں کی مگر دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ اس جدید نظام کو ریگولیٹ کرنے کے لئے کوئی قانونی بنیاد موجود ہی نہیں ہے۔ دوہرے جرمانوں کے ساتھ ساتھ اس نظام کی ایک اور خامی یہ ہے کہ کرتا کوئی ہے اور بھرتا کوئی ہے۔ جیسے ایک شخص نے گاڑی بیچ دی اور وہ قانونی خلا کی وجہ سے اوپن لیٹر پر چلائی جا رہی ہے تو جتنی دیر نیا مالک اپنے نام نہیں کرواتا اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے، جرمانہ سابق مالک کے نام پر ہی جمع ہوتا رہے گا۔ قانون کا سادہ سا اصول یہ ہے کہ باپ کے جرم کی سزا بیٹے اور بیٹے کے جرم کی سزا باپ کو نہیں دی جا سکتی لیکن یہاں جو گاڑی کا ڈرائیور جو بھی ہو، جرمانہ مالک کو ہی ادا کرنا ہو گا۔ اب تازہ ترین صورتحال یہ بنی ہے کہ قانون سازی تک عدالت نے بجا طور پر جرمانوں سے روک دیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا حمزہ شہباز کی حکومت اس وقت کوئی بھی قانون منظور رکروانے کی پوزیشن میں ہے۔ اسمبلی میں چوہدری پرویز الٰہی بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کی موجودگی میں بجٹ کا پیش کرنا اور منظور ہونا بھی ایک معجزہ ہی ہو گا، ہم یہاں ٹریفک کے ایک قانون کو رو رہے ہیں۔
پاکستانی قوم بحثیت مجموعی بااختیار لوگوں کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے جو اس کو نچوڑے جا رہے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب سیف سٹی پراجیکٹ کا منصوبہ بن رہا تھا تو اس کے لئے ترکی کا دورہ ہوا تھا۔ میں بھی اس وقت ترکی میں ہی تھا اور وہاں میں نے اس منصوبے پر اس وقت کے وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ شجا ع خانزادہ ( جو بعد میں شہید ہو گئے تھے) کا ایک انٹرویو بھی کیا تھا۔ جب یہ سب تیاریاں ہورہی تھیں تو شہباز شریف کی صوبائی حکومت کو چاہئے تھا کہ اس کی قانونی بنیاد بھی رکھتے کیونکہ ان کے پاس اسمبلی میں واضح اکثریت موجود تھی مگر نااہلی کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ بات کوئی نئی نہیں کہ سیف سٹی پراجیکٹ کو کسی قسم کی قانونی سپورٹ حاصل نہیں بلکہ مجھے یہ کہنے میںعار نہیں کہ ہمارا پورے کا پورا نظام ہی زبانی احکامات اور کچھ افسران کی خواہشات پر چل رہا ہے جیسے اس وقت گاڑیوں کے کالے شیشوں کے خلاف ایک مہم جار ی ہے اورا س کا جرمانہ پانچ سو روپے کی بجائے اڑھائی ہزار روپے کیا جا رہا ہے۔ اب اگر پوچھا جائے کہ جرمانے کی شرح بڑھانے کی منظوری کس بااختیارقانونی ادارے یعنی اسمبلی سے لی گئی ہے تو اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اس سے پہلے ہائی کورٹ کے حکم پر لینڈ کروزر سے لے کر موٹرسائیکل تک سب کا دو، دو ہزار روپے کاچالان کیا جاتا رہا ہے۔ میں پوری طرح قائل ہوں کہ ٹیکس اور جرمانے اگر کسی ایسے ادارے کے منظور شدہ نہیں جو ٹیکس اور جرمانے عائد کرنے کا آئینی طور پر اختیار رکھتا ہے تو یہ جگا ٹیکس ہے، بھتہ ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم جو بھی کام کرتے ہیں اس کے لئے بلند و وبانگ دعوے ہوتے ہیں مگر کیا اس کی قانونی اور اخلاقی بنیاد موجود ہے اس پر غور نہیں کرتے۔ میں پھر گاڑیوں پر کالے شیشوں کے حوالے سے بات کروں گا کہ جو اتھارٹیز اس مہم کی نگرانی کر رہی ہے اور اس سے مال بنا رہی ہیں ان میں چاہے ہوم سیکرٹری ہے، سی سی پی او ہے، سی ٹی او ہے یا کوئی ایس پی ، ڈی ایس پی، ان تمام کی گاڑیوں کی شیشے کالے ہیں حتی کہ یہاں ایک ایس ایچ بھی گاڑی لے کر نکلتا ہے تو اس کی گاڑی کے شیشے کے اندر نہیں دیکھا جا سکتا مگر دوسری طرف عوام کے لئے پابندی ہے کیونکہ وہ عوام ہیں، حاکم نہیں۔
یہ بات واضح ہو چکی کہ سیف سٹی حکام ( یعنی پنجاب حکومت) ہم سے لئے ہوئے جرمانوں کا عدالت میں کوئی قانونی جواز پیش نہیں کرسکی اور نہ ہی ان کی آڈٹ رپورٹ دے سکی ہے، یہ وہاں آئیں بائیں شائیں کرتے رہے ہیں، لہذا فوری طور پر اس پر ایک نیب کیس بننا چاہئے۔ دوسرے ہم سب سے لئے ہوئے غیر قانونی جرمانوں کی واپسی ہونی چاہئے۔ تیسرے اس دوران جو لوگ ان سیٹوں پر رہے ان کے پیٹ پھاڑ کے یہ ساری کی ساری رقم واپس موصول ہونی چاہئے۔ میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ کرپشن کرنے والے اگر مر بھی گئے ہوں تو ان کی قبروں سے ان کے مردے نکال کے ان کی کرپشن سے پلی ہوئی باقیات سے وصولی ہونی چاہئے۔ کیا یہ کوئی جنگل ہے کہ اس میں جس کا جو دل چاہتا ہے وہ قانون بنا کے لاگو کردیتا ہے اور قانون بنانے کا اختیار رکھنے والے ادارے کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں، تماشا بنے ہوئے ہیں۔