پاکستان میں آج کل اسرائیل سے تعلقات اور رابطوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے،کہا یہ جاتاہے کہ ایک پاکستانی وفد نے اسرائیل کا دورہ کیا اوراسرائیلی صدر سے ملاقات کی یہ سب جانتے ہوئے کہ پاکستان اسرائیل کو اگر آج تسلیم کرتا ہے تو ہم اپنے بانیان کی سیاسی بصیرت کی مخالفت کریں گے جس سے یہ بات عیاں ہوگی کہ عالم اسلام کے ان عظیم مفکرین اور رہنمائوں نے اسرائیل کے معاملے پر جو موقف اپنایاتھا وہ غلط تھا ، اس پر امریکا نوازحکومت کو اپنی واضح پالیسی سے قوم کو اعتماد میں لینے کی ضروت ہے، کیونکہ پاکستان میں قائم کئی جماعتوں کے اشتراک سے بننے والی اس نااہل اور کرپٹ ترین حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ فلسطینی عوام کی خواہشات کے مطابق تنازع فلسطین کے منصفانہ حل تک پاکستان اسرائیل کو کسی بھی حال میں تسلیم نہیں کر سکتا۔ یہ بات ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ فلسطینیوں کی رضامندی کے بغیر تنازع فلسطین کا کوئی بھی حل اس کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہو نا چاہیے۔اسرائیل کو تسلیم کرنے کا باتیںسعودی عرب میں زیر بحث ضرور ہونگی تاہم جس طرح کی مجبوریاں مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کی ہوسکتی ہے وہ مجبوریاں پاکستان کی نہیں ہیں۔ کیونکہ پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے بارے میں ایک اصولی موقف رہا ہے۔جس پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی چارسدہ میں ورکرکنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ ن لیگ کی حکومت اسرائیل کو تسلیم کر نے جارہی ہے اور کہاکہ یہ بھارت سے کشمیریوں کے خون کا سوداکرینگے،اس بیان سے تحریک انصاف کے رہنما نے اسرائیل کے معاملے میں اپنا واضح موقف پیش کیاجب کی اس کی نسبت ایک مذہبی جماعت کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم میں عمران خان ٹرمپ کے ساتھ تھا عمران حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سازشیںکیں، مولانا کے اس بیان کا جواب صاف ہے جس پر میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان کی بات میں صداقت ہے تو عمران خان کے ساڑھے تین سال میں اسرائیل کو کیوں نہ تسلیم کیا جا سکا۔بطور وزیراعظم عمران خان نے کہاتھا کہ ہمارا موقف قائداعظم محمد علی جناح نے 1948میں واضح کر دیا تھا کہ ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے جب تک فلسطین کو ان کا حق نہیں ملتا ان کی انصاف کے مطابق آبادکاری نہیں
ہوتی جو کہ فلسطینیوں کا دوقومی نظریہ تھا کہ ان کو کوئی ان کی پوری ریاست ملے۔عمران خان نے کہا تھا کہ جب ہم اسرائیل اور فلسطین کی بات کرتے ہیں توکیا ہم خدا کو جواب دیں گے کہ ہم ا ن لوگوں کو جن پر ہر قسم کی زیادتیاں ہوئی ہیں جن کے حقوق سلب کیے گئے ہیں ان کو تنہا چھوڑسکتے ہیں اس بات کو میرا ضمیر تو کبھی تسلیم نہیں کرتاعمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان اگر اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے فلطسینی زمین پر اس کاقبضہ بھی تسلیم کر لیا ہے انہیں خدشہ ہے کہ ایسی صورت میں کشمیر پر پاکستان کا موقف کمزور پڑ جائیگا۔فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قیام 1948میں عمل میں آیا تھا اس بات کو سات دہائیوں سے زائد وقت گزرچکا ہے مگر اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔پاکستان ان اسلامی ممالک میں شامل ہے جنہوںنے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتاناچاہونگا کہ 1947میں اسرائیل کے بانی ڈیوڈبن گریون نے قائداعظم محمد علی جناح کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے متعلق ٹیلی گرام بھیجا تو انہوں نے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا ان کے اس رویے سے یہ اخذ کیا گیا کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلق قائم نہیں کر نا چاہتا۔پاکستان میں فلسطین مخالف سرگرمیوں کی ہر گز اجازت نہیں ہونی چاہیے ان کا کہنا تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں بربریت کی بدترین مثالیں قائم ہورہی ہیں جس پر ہم خاموش نہیں بیٹھنا چاہیے۔مسئلہ فلسطین حل کیے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب پاکستان کے مفادات کا نہیں نیتن یاہو اور امریکہ کے مفادات کا تحفظ ہے لہٰذا وزیراعظم عمران خان سے لاکھ اختلافات کرنے والے بھی اس بات پر ان کے مداح ہوں گے کیونکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے وہ قائداعظم کے راستے پر چل نکلے ہیں۔اوریہ ایک حقیقت بھی ہے کہ کسی بھی مسلمان کاضمیر اتنی گری ہوئی حرکت میں اسرائیل کاساتھ نہیں دے سکتاتاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کی سب سے زیادہ لڑائیاں یہودیوں کے خلاف ہوئیں اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں بھی سب سے زیادہ یہودیوں نے کیں اور اسوقت بھی اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔جیساکہ عمران خان نے چارسدہ کنونشن میں کچھ اشارے دیئے بالکل اسی طرح بھارت اور اسرائیل کے آپس میں بہت ہی گہرے تعلقات ہیں یا دیگر الفاظ ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں اسرائیل ہر موقع پر بھارت کی مددکرتا ہے بھارت اسرائیلی ہتھیاروں کا بھی اہم خریدار ہے۔آج اگر ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا ہی جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگاکہ امریکہ عمران خان کے خلاف کیوں تھا عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا میاب ہونے پر امریکی موقف دیکھیں، واضح ہے کہ تحریک کی کامیابی کی ایک وجہ عمران خان کی آزاد خارجہ پالیسی کے ساتھ ملکی خودمختاری کا ٹھوس موقف تھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ نوازلیگ کے گزشتہ ادوار میں بھی اس قسم کی حرکتیں سامنے آتی رہی ہیں سابق وزیراعظم نوازشریف نے اپنے دور حکومت میں وفد اسرائیل بھیجا نوازشریف دیکھنا چاہتے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ تجارت اور تعلقات کیسے استوار ہوسکتے ہیں وزیراعظم نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی اسرائیل میں اہم ملاقاتیں طے کرتے تھے۔مولانا اجمل قادری کے انکشافات کے مطابق انہوںنے1998میں نوازشریف کی ایما ء پر ان کے دور حکومت میں اسرائیل کا دورہ کیا تھا ان کے وفد میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان سمیت دیگر لوگ شامل تھے۔ جبکہ عمران خان کی حکومت پر الزام لگانے والے آج خود ان کی حکومت کے اتحادی ہیں جو ماضی کی اس قسم ک سازشوں کو خاموشی سے پی گئے ہیں جبکہ الزام ایک ایسے شخص پر لگانے کی کوشش کی جسے آج دنیا عالم اسلام کا ہیرو مانتی ہے جس نے اقوام متحدہ کے فلور پر اپنی تقریروں سے دنیا عالم پر سکتہ طاری کردیا تھا۔ لہٰذا جہاں موجودہ حکومت کواسرائیل سے تعلق داری پر اپنا موقف پیش کرنا چاہیے وہاں الٹا حریفوں کو ہی رگڑاجارہاہے مولانافضل الرحمان خود کشمیر کمیٹی کی سربراہی میں کیا گل کھلاتے رہیں وہ سب کومعلوم ہے جبکہ ان دنوں وہ ملک میں جے کانت شکرے کا کرداراداکررہے ہیں جو گھر بیٹھے حکومت سے اپنے کام آسانی سے نکلوارہے ہیں لہٰذا ان کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ کشمیر اور فلسطین ایک طرح سے جڑے ہوئے ہیں یہ دونوں ایک طرح کے مسئلے ہیں اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو کشمیر کے لیئے کتنی بڑی قیمت ادا کرنا ہوگی۔اگر پی ڈی ایم کی حکومت کی جانب سے چوری چھپے اس قسم کی کوشش کی گئی ہے تو یہ نہ صرف ایک بہت بڑی غلطی ہوگی بلکہ ان عظیم رہنمائوں افکار و خدمات سے غداری ہوگی ۔